کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 95
میں پیدا ہوجاتی ہیں اور اگر کسی معاشرے میں یہ برائیاں عام ہوجائیں تو ان کی سب سے پہلی زد خاندان کے استحکام اور خوشیوں پرپڑتی ہے جوکسی بھی معاشرے کی بنیاد ہے اور پھر وسیع تر سطح پر اس معاشرے کا آرٹ و ادب ، تفریحات اورکھیل ، علوم وفنون ، فوجی خدمات اور نظام تہ و بالا ہوکر رہ جاتے ہیں۔ 3. جوشخص یہ کہتا ہے کہ ایک جوان مرد کو ’تفریح‘ کا حق ٭حاصل ہے، وہ گویاساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ معاشرے میں جسم فروش عورتوں کاطبقہ مستقل طور پر موجود رہنا چاہئے۔ 4. معاشرے میں زنا کے عام ہونے سے نکاح کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ جس معاشرے میں ذمہ داریاں قبول کئے بغیر خواہشاتِ نفس کی تسکین کے مواقع حاصل ہوں وہاں افراد نکاح کرکے اپنے سربھاری ذمہ داریوں کا بوجھ کیوں ڈالیں گے؟ 5. زنا کے عام ہونے سے معاشرے کو ایک بڑی تعداد میں بن باپ کے بچے ملتے ہیں جن کا خیرمقدم کرنے کے لئے نہ ماں تیار ہوتی ہے، نہ باپ اور نہ ہی معاشرہ انہیں قبول کرتا ہے۔ وہ ایک مطلوب چیز کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ناگہانی مصیبت کی حیثیت سے والدین کے درمیان آتا ہے۔ اسے باپ کی محبت اور وسائل میسر نہیں ہوتے۔ ایسے بچے ناقص اور نامکمل انسان بن کر اُبھرتے ہیں اور معاشرے کیلئے ایک بوجھ بن جاتے ہیں۔ 6. زنا کے ذریعے ایک خود غرض انسان جس عورت کو ایک بچے کی ماں بنا دیتا ہے، اس عورت کی زندگی ہمیشہ کے لئے تباہ ہوجاتی ہے اور اس پر ذلت اور نفرتِ عامہ کا ایسا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے کہ جیتے جی وہ اس کے بوجھ کے نیچے سے نہیں نکل سکتی۔ ایک جائز بچے کی ماں اورایک ناجائز بچے کی ماں کو معاشرہ کبھی بھی مساوی درجہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا اورحقیقت میں وہ مساوی ہو بھی کیسے سکتی ہیں ؟[1]