کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 94
ہے۔ اسی طرح کنواری ، بیوہ اورمطلقہ خواتین کے ساتھ ان کی مرضی سے فعل زنا کا ارتکاب کوئی جرم نہ تھا۔اس دفعہ کے تحت دراصل معاشرے کے بدکردار اور بیمار ذہنیت کے حامل افراد کو کھلی چھٹی دے دی گئی تھی جو کہ ہماری معاشرتی اقدار اوراسلامی تعلیمات سے متصادم تھی چنانچہ جو لوگ جائز نکاح کے بغیر جنسی تعلقات قائم کرنا درست سمجھتے ہیں ، ان کی جانب سے یہ مطالبہ تو قابل فہم ہے لیکن جو لوگ نکاح کے بغیر جنسی تعلقات کو غلط سمجھتے ہیں ، اُنہیں معلوم ہونا چاہئے کہ سابقہ قانون میں ایک ایسا سقم موجود تھا جسے دور کرنا ضروری تھا۔ اسلام زنا کو معاشرے کیلئے سخت نقصان دہ سمجھتا ہے اوراسے مطلقاً حرام قرار دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَلاَ تَقْرَبُوْا الزِّنیٰ اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّ سَآئَ سَبِیْلاً﴾ ( بنی اسرائیل:۳۲) ’’زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو کیونکہ وہ بے حیائی ہے اوربہت بُرا راستہ ہے۔‘‘ نیز فرمایا کہ ﴿اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِأَۃَ جَلْدَۃٍ ﴾ (سورۃ النور :۲) ’’زانی عورت اور زانی مرد ہر ایک کو ۱۰۰، ۱۰۰ کوڑے مارو۔‘‘ جرمِ زنا کو حرام قرا ردیتے ہوئے اس پر سخت ترین سزا تجویز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ فرد اور معاشرے کو ان قباحتوں سے بچانا چاہتی ہے جو اس فعل کا لازمی نتیجہ ہیں۔ یہ نتائج مندرجہ ذیل ہوسکتے ہیں : 1. ایک زانی اپنے آپ کو امراضِ خبیثہ کے خطرے میں مبتلا کرتا ہے اوراس طرح وہ نہ صرف اپنی جسمانی قوتوں کی اجتماعی افادیت میں نقص پیدا کرتا ہے بلکہ معاشرے اور نسل کوبھی نقصان پہنچاتا ہے۔ ایڈز جیسی بیماریوں کے پھیلنے سے آج مغرب خود پریشان ہے اور اس بات کی تبلیغ پر مجبور ہے کہ لوگ اپنے آپ کوصرف اپنی قانونی بیوی تک محدود رکھیں۔بعض امراض تو ایسے ہیں جونسل در نسل منتقل ہوتے ہیں۔ 2. ایک زانی کے لئے ان اخلاقی کمزوریوں سے بچنا ناممکن ہے جن کا اس کے کردارمیں پیدا ہونا اس فعل کا لازمی نتیجہ ہے۔بے حیائی، فریب کاری، جھوٹ، بدنیتی، خود غرضی، خواہشات کی غلامی، ضبط ِنفس کی کمی، خیالات کی آوارگی اوربے وفائی جیسی برائیاں زانی