کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 93
اس قانون میں موجود ایک سقم کہلائے گا۔نیز ایک تکنیکی مسئلے کو خواہ مخواہ خواتین سے امتیازی سلوک قرار دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔ ہم یہاں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں کہ بچوں کے حوالے سے سب سے پہلے قانون سازی اسلام نے کی۔ اسلامی شریعت میں ولادت سے لے کر بلوغت تک ادراک و اختیار کی تکمیل کے مختلف مراحل کے لحاظ سے بچوں کے احکام مختلف ہیں۔ ولادت سے لے کر سن بلوغ تک انسان کئی مراحل سے گزرتا ہے۔ پہلا مرحلہ جس میں اِدراک موجود نہیں ہوتا تو وہ ناسمجھ بچہ یعنی ’صبی غیر ممیز‘ ہے۔ یہ مرحلہ ۷سال تک جاری رہتا ہے۔ اگر بچہ ۷سال کی عمر سے قبل کوئی جرم کرے تو اسے کوئی سزانہ دی جائے اورایسا بچہ فوجداری مسؤلیت سے مستثنیٰ ہوگا۔ دوسرا مرحلہ ۷ سال کے بعد سے شروع ہوکر بلوغ پرختم ہوتا ہے۔ یہ سمجھداربچہ یا ’صبی ممیز‘ کہلاتا ہے۔ یہ بھی فوجداری مسؤلیت سے مستثنیٰ ہے، اسے کسی جرم کے ارتکاب پر سزا نہیں دی جائے گی، تاہم اسے ایسی تادیبی سزا دی جاسکتی ہے جس کا مقصد تنبیہ اور سرزنش ہو۔ تیسرا مرحلہ بلوغ کے بعد شروع ہوتا ہے، ایسا فرد جرم کے ارتکاب پرسزا کا مستحق ہوتاہے، اس کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں بلکہ علاماتِ بلوغ کے ظاہر ہوتے ہی یہ مرحلہ شرو ع ہوجاتا ہے۔[1] ٭ کیا سابقہ قانون اس آرڈی نینس سے بہتر تھا؟ ایک خیال یہ ہے کہ چونکہ پاکستان کی خواتین یہاں کے مخصوص معاشرتی پس منظر کی وجہ سے پوری طرح آزاد اور خود مختار نہیں ہوتیں ، اس لئے ان غیر مساوی حالات میں زنا کے مقدمات میں عورت کوملزم بنانا درست نہیں ، لہٰذا سابقہ قانون حد زنا آرڈی نینس کی نسبت بہتر تھا، اسے بحال کیا جائے۔ سابقہ قانون یعنی تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ نمبر ۴۹۷ کے مطابق زنا کے مقدمات میں صرف مرد ملزم ہوتا تھا اور وہ بھی اس صورت میں جب وہ کسی شادی شدہ عورت سے اس کے شوہر کی اجازت یا اس کی ملی بھگت کے بغیر اس جرم کا ارتکاب کرتا۔ بالفاظ دیگر زنا بذاتِ خود کوئی جرم نہ تھا بلکہ یہ صرف اس لئے جرم تھا کہ شوہر کے حق میں کسی دوسرے نے مداخلت کی