کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 92
چاہئے جو اُنہیں اس جرم کے ارتکاب سے باز رکھ سکے۔ اگر کسی معاشرے میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں تو یہ اُس معاشرے کے قانونی نظام میں ایک سقم ہے جسے بہرحال دور کیاجانا چاہئے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بچیاں جسمانی طور پر تو بالغ ہوجاتی ہیں لیکن ذہنی طور پر اتنی پختہ نہیں ہوتیں کہ جرم کی نوعیت اور اس کے نتائج کو سمجھ سکیں۔ اس سلسلہ میں ہماری رائے یہ ہے کہ اُنہیں سزا سے مستثنیٰ قرار دینے کو عمومی اُصول نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ اس طرح کم عمر بچے جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں میں کھلونا بن جائیں گے۔ تاہم عدالتوں کی یہ مستقل ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی مقدمہ کا فیصلہ کرتے وقت اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ ملزم ذہنی طور پر کتنا پختہ ہے اور ہر مقدمہ کی نوعیت کے مطابق کسی بھی ملزم کو سزا میں رعایت دی جاسکتی ہے یا اسے سزا سے مستثنیٰ قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہی بات تعزیراتِ پاکستان دفعہ نمبر ۸۳ میں بھی بیان ہوئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
’’۷ سال سے ۱۲ سال کی عمر کا بچہ جواتنی پختہ سوچ کا مالک نہ ہوکہ اپنے رویے کی نوعیت اور اس کے نتائج کو اچھی طرح سمجھ سکے، اگر کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ جرم تصور نہیں ہوگا۔‘‘
مذکورہ بالا دفعہ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ۷ سال سے ۱۲سال تک کی عمر کا بچہ صرف اس صورت میں فوجداری مسؤلیت سے مستثنیٰ ہے جب عدالت اس بات پرمطمئن ہو کہ وہ اتنی پختہ سوچ کا مالک نہیں ہے کہ اپنے رویے کی نوعیت اور اس کے نتائج کواچھی طرح سمجھ سکے۔ اسی طرح جو بچہ ۱۲ سال سے زیادہ عمر کا ہے، وہ فوجداری مسؤلیت سے مستثنیٰ نہیں ہے اور اسے جرم کے ارتکاب پر سزا دی جائے گی۔
جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو اسے امتیازی سلوک ہر گز قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اس لئے کہ بلوغ کی عمر کو پہنچنے کے بعد ایک بچی یا بچہ اس جرم کے ارتکاب کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں لہٰذا اس جرم کے ارتکاب کاراستہ روکنے کے لئے ضروری ہے کہ قانون موجود ہو۔ اس بات کو ہم اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ مثال کے طور پر اگریہ قانون بنایا جائے کہ لڑکا ہو یا لڑکی ۱۲ سال کی عمر سے قبل سزا سے مستثنیٰ ہوں گے تو ایسی صور تِ حال میں اگر کوئی بھی لڑکا یا لڑکی اس جرم کا ارتکاب ۱۲ سال کی عمر سے قبل کرتے ہیں تو اس کا سدباب کیسے ممکن ہوگا؟ یہ