کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 91
ذرا سا شبہ بھی حد زنا کی سزاکوساقط کردیتاہے۔ شریعت کا مستقل اُصول ہے کہ ’’شبہات کی بنا پر حدود ساقط ہوجاتی ہیں۔‘‘ ان شبہات سے فائدہ اٹھا کر ۱۹۷۹ء سے لے کر اب تک حد کی سزا پاکستان میں نافذ نہیں کی گئی لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ان مقدمات میں تمام ملزموں کو بری کردیا جاتاہے بلکہ عدالت کو مقدمہ کے حالات کے مطابق تعزیری سزادینے کا اختیار حاصل ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں ایک قانون کو ختم کرنے کی بجائے معاشرے کو مثالی معاشرہ بنانے کی طرف پیش رفت کی جائے اور افراد کی اصلاح و تربیت کرنے پر زور دیا جائے۔
٭ کیا سزا کے لئے بلوغت کو معیار بنانا درست نہیں ؟
حد زنا آرڈی نینس کی دفعہ نمبر ۵ اور ۱۰ کے مطابق ہر عاقل و بالغ شخص جوجرمِ زنا کا ارتکاب کرے گا، وہ ان دفعات میں دی گئی سزا کا مستحق قرار پائے گا۔ اس پر مندرجہ ذیل اعتراضات کئے جاتے ہیں :
1. پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عموماً ۸/۹ سال کی عمر کی بچیاں بھی بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتی ہیں جو جسمانی طور پرتو بے شک بالغ ہوتی ہیں لیکن ذہنی طور پر اتنی پختہ نہیں ہوتیں کہ اس جرم کی نوعیت اوراس کے نتائج کو سمجھ سکیں۔ ایسی معصوم بچیوں کو ان دفعات کے تحت سزا دینا بڑا ظلم ہے۔
2. دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ چونکہ فطری طور پر ایک بچی جلدی بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتی ہے تو وہ بچے کی نسبتاً جلد سزا کی مستحق قرا رپاتی ہے۔ یہ بھی ایک طرح کا امتیازی سلوک ہے جوعورت کے ساتھ روا رکھا گیاہے۔
ان اعتراضات کے حوالے سے ہم عرض کرنا چاہیں گے کہ کسی بھی قانون کا بنیادی مقصد معاشرے کو جرائم سے پاک کرنا اور افرادِ معاشرہ کو ان جرائم کے ارتکاب سے باز رکھنا ہے۔ جامع اور نقائص سے پاک قانون وہی ہوسکتا ہے جو جرم کے ارتکاب کی تمام امکانی صورتوں کا راستہ روکنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جسمانی طور پر بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد کوئی بھی بچہ یا بچی جنسی خواہش کو پورا کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں۔ اس لئے ایسا کوئی قانون موجود ہونا