کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 90
میں ہونے والے انتخابات کے ذریعے پانچویں مرتبہ پارلیمنٹ قائم ہوچکی ہے اور منتخب اداروں نے اگر ان قوانین کو مسلسل جاری رکھا ہے تو یہ منتخب اداروں کی طرف سے ان قوانین کو جواز عطا کرنے کی ہی ایک صورت ہے۔
٭ کیامثالی اسلامی معاشرہ کے قیام کے بغیر حد ِزنا آرڈی نینس کا نفاذ مناسب ہے ؟
کہا جاتا ہے کہ جس معاشرے میں فحاشی اور عریانی عروج پر ہو، میڈیا کے زیر اثر نوجوان نسل تیزی سے بے راہ روی کا شکار ہورہی ہو تو ان حالات میں حد ِزنا کی سخت سزاؤں کا نفاذ غیر مناسب ہے۔ لہٰذا جب تک بُرائی پر آمادہ کرنیوالے تمام عناصر کا قلع قمع نہیں کردیا جاتا اور ایک مثالی اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں آجاتا اس وقت تک اس قانون کو ختم کردینا چاہئے۔
عملی طور پر انسانی معاشرے میں مثالی اسلامی معاشرے کا قیام ایک مشکل بات ہے۔نیز اس بات کا تعین کرناکہ معاشرہ مثالی بن چکا ہے یا نہیں ؟ بھی ممکن نہیں۔ اسلام نے جس مثالی معاشرے کی تصویر کشی کی ہے وہ دراصل ایک ہدف ہے جس کے حصول کے لئے مسلسل جدوجہد کرنا ضروری ہے۔دورِ حاضر میں جو معاشرے مہذب کہلاتے ہیں وہاں بھی چوری، ڈاکہ، فراڈ اور خواتین کی بے حرمتی جیسے واقعات بڑی تعداد میں وقوع پذیر ہوتے ہیں ، اس لئے یہ اعتراض محض فرار کا ایک راستہ ہے۔ دراصل معاشرے سے برائیوں کا قلع قمع کرنے کے لئے اور اسے مثالی معاشرہ بنانے کے لئے ہی قوانین بنائے اور نافذ کئے جاتے ہیں۔ حد زنا کا قانون بھی معاشرے کوپاکیزہ بنانے کے لئے بنایا گیا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ موجودہ حالات میں جب بہت سے عناصر لوگوں کو جرمِ زنا کے ارتکاب پر مجبور کررہے ہیں تو سنگساری یا کوڑوں جیسی سخت سزا کا قانون نامناسب ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں مسئلہ کا حل یہ ہرگز نہیں کہ اس قانون کو ہی ختم کردیا جائے بلکہ دراصل ان عناصر کا خاتمہ ہونا چاہئے جومعاشرے کو بُرائی کی آماج گاہ بنا رہے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ حد زنا کا قانون کوئی جامد قانون نہیں۔ دراصل یہ عدالتوں کا کام ہے کہ وہ مقدمہ کی تفصیلات، واقعات کا پس منظر، جرم کے محرکات اور ملزم کے حالات کو پیش نظر رکھ کر مقدمہ کا فیصلہ اور سزاکا تعین کریں۔ شریعت ِاسلامی میں