کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 89
جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ، جسٹس (ر) صلاح الدین، مولانا تقی عثمانی، جسٹس (ر) پیر کرم شاہ ازہری اور ڈاکٹر محموداحمدغازی جیسی نمایاں شخصیات نے اسلامی نظریاتی کونسل میں مسلسل چودہ ماہ تک بحث و مباحثہ کے بعد سفارشات کو حتمی شکل دی۔ان سفارشات کی بنیاد پر ہی ۱۹۷۹ء میں حدود کے قوانین کا نفاذ کیا گیا۔[1] شام کے سابق سپیکر ڈاکٹر معروف دوالیبی، معروف شامی سکالر ڈاکٹر مصطفی زرقا اور سوڈان کے سابق اٹارنی جنرل سے بھی حد ِزنا آرڈی نینس کے بارے میں رائے لی گئی۔اس آرڈی نینس کے مسودّہ کو عوامی رائے معلوم کرنے کے لئے مشتہر بھی کیا گیا تھا۔ پاکستان میں رائج دیگر قوانین کے بارے میں تو شایدیہ اعتراض کیا جاسکے کہ اکثر قوانین وزارتِ قانون و پارلیمانی اُمور کی غلام گردشوں میں تدوین کے مراحل طے کرتے ہیں اور کسی صبح اچانک نافذ کردیے جاتے ہیں لیکن حدود کے قوانین کے بارے میں ایسا اعتراض سراسر لاعلمی پر مبنی ہے۔٭ ٭ کیااس آرڈی نینس کو غیر جمہوری اندازمیں نافذ کیا گیا؟ ایک اعتراض یہ ہے کہ فردِ واحد یعنی جنرل ضیاء الحق نے غیر جمہوری انداز میں اس قانون کو نافذ و جاری کیا۔ جمہوری اداروں کی عدم موجودگی میں قانون سازی کا عمل بہرحال فردِ واحد کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے اور کسی بھی قانون کی تشکیل سے قبل اس پر عوامی نمائندوں کی جانب سے ضروری بحث و مباحثہ کا رسمی عمل ممکن نہیں ہوتا لہٰذا یہ ابہام قائم رہتا ہے کہ ان قوانین کوعوام کی کس قدر تائید حاصل ہے۔تاہم حدود قوانین کے حوالے سے یہ بحث اب اس اعتبار سے غیر متعلق ہوچکی ہے کہ ۱۹۷۹ء میں ان کے اجرا کے بعد، ۱۹۸۵ء میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے یہ قوانین جمہوری طور پر منتخب اسمبلی نے منظور کرلیے تھے اورا س کے بعد ملک میں اکتوبر ۲۰۰۲ء