کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 88
قانون و قضا جرمِ زنا آرڈی نینس پر اعتراضات کا جائزہ ملک میں اس وقت بعض مخصوص مقاصد کے تحت حدود آرڈیننس کا میڈیا ٹرائل جاری ہے۔ ماہنامہ محدث نے گذشتہ سالوں میں قانونِ توہین رسالت کے علاوہ حدود آرڈیننس پر بھی متعدد ایسے مضامین شائع کئے جن میں قانونی وابلاغی حلقوں کے اعتراضات کا تفصیلاًجواب دیا گیا ہے۔ صرف ۲۰۰۴ء میں حدود آرڈیننس پر تین تفصیلی مضامین شائع ہوئے: جنوری ۲۰۰۴ء میں ’حدود آرڈیننس کا بدستور نفاذ یا استرداد؟‘ جون ۲۰۰۴ء میں ’حدود قوانین، انسانی حقوق اور مغرب کا واویلا‘ اور نومبر ۲۰۰۴ء میں ’قتل غیرت کے نام پر قرآن وسنت سے متصادم قانون سازی۔‘ تازہ ابلاغی معرکہ کی حقیقت ِحال کو جاننے کے لئے قارئین کو محدث کے ان سابقہ مضامین کا مطالعہ کرنا مفید ہوگا، بالخصوص جون ۲۰۰۴ء میں شائع ہونے والا ڈاکٹر ظفر علی راجا کا مضمون۔ مطالعے کے لئے ان مضامین کو محدث کی ویب سائٹ پر بھی دوبارہ لنک Linkکردیا گیا ہے۔ زیر نظر مضمون اسلام آباد کے ادارے ویمن ایڈ ٹرسٹ کی طرف سے حدود قوانین پر اعتراضات کا جواب دینے کی ایک قابل قدر کاوش ہے جس کی اہمیت موجودہ حالت میں دو چند ہوجاتی ہے۔ اس مضمون کے حواشی میں ڈاکٹر ظفر علی راجا کے تحریر کردہ بعض مفید نکات اور نظائر کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ مدیر ٭ کیا اس آرڈی نینس کو جلدی میں مدوّن و نافذ کیا گیا؟ حد زناآرڈی نینس پر سب سے پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ قوانین اچانک منظرعام پرآئے،جن پر نہ توکسی بحث کی ضرورت محسوس کی گئی اورنہ کسی سطح پرکوئی تبادلہ خیال یاغورو خوض کیا گیا۔ نیز ان کے نفاذ کے ممکنہ نتائج کے تجزیے کا بھی کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ ان کا مصنف کون ہے؟[1] جو لوگ حقیقت ِحال سے واقف ہیں ، وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ محض ایک غلط فہمی ہے۔ جناب شریف الدین پیرزادہ، جناب اے کے بروہی، ڈاکٹر خالداسحق، جسٹس (ر)اے کے صمدانی،