کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 87
حالات میں حدود آرڈیننس کو چھیڑنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہوگا۔
انصاف : سمیعہ راحیل قاضی سے ہماری بات ہوئی۔ وہ یہی کہتی ہیں کہ ان حالات میں اس قانون کو چھیڑنا ہی اس کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔کیونکہ ان لوگوں کے پاس اکثریت ہے اور یہ لوگ نیک نیت بھی نہیں ہیں۔
مولانا مدنی:میں سمجھتاہوں کہ حدود آرڈیننس میں قصاص ودیت آرڈیننس کی دفعہ ۳۳۸/ایف سے زیادہ واضح کتاب وسنت والی بنیاد کااضافہ ضرور ہونا چاہئے تاکہ اس قانون پرجب بھی کوئی اعتراض یااس میں سقم سامنے آئے تو اسے قرآن و سنت پر پیش کیاجاسکے اور یہ کام اعلیٰ عدلیہ کے قاضی حضرات کے ذریعے ہو جو خود بھی قرآن و سنت کے ماہر اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوں یا وہ علما کی راہنمائی میں ایسا کریں۔ جیسا کہ قصاص ودیت آرڈیننس میں دفعہ ۳۳۸ /ایف کے بارے میں میں بعض اہم فیصلوں کا ذکر کر چکا ہوں۔ہمارے ملک کے رواج کے مطابق قانون سازی (Legistation)ہماری مجبوری بن چکی ہے۔اس پر اگر قرآن وسنت کی اتھارٹی قانوناً قائم ہوگی تو پھر کوئی خطرہ نہیں ہے۔
میری تجویز کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تک ہمارے پاس قرآن و سنت موجود ہے، اس وقت تک تمام ائمہ کی فقہ بھی ہمارے لئے قیمتی سرمایہ ہے اورشریعت کی قانون سازی کی کمزوریوں کا حل بھی موجود ہے۔ورنہ ان شرعی آرڈیننسوں کو قرآن و سنت سے الگ کردیں تو یہ سب بگاڑ ہی بگاڑ ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ تمام قوانین پر قرآن کریم کا یہ اُصول قائم رہے ﴿فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰه وَالرَّسُوْلِ﴾ ’’جب کسی مسئلہ میں تمہارا کوئی نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کرو۔‘‘ اس طرح ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ یہی وہ شرعی طریقہ کار ہے جو چودہ صدیاں چلتا رہا ہے، اس کے احیا کی ضرورت ہے۔یہی بات جسٹس ناصر اسلم زاہد نے بھی کہی کہ ’’ حدود آرڈیننس کو قرآن کے مطابق بناؤ۔‘ ‘وگرنہ وہی کچھ ہوتا رہے گا جو جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ
’’لوگوں کو راضی رکھنے کے لئے ہمیں قانون تو بنانے پڑتے ہیں ،لیکن ان کو مؤثر اور قابل عمل نہیں رکھا جاتا۔ان کی حیثیت زیبائشی اور آرائشی قوانین کی ہوتی ہے۔یہ منافقت اس لئے ضروری ہے کہ ہم علما کو بھی ناراض نہیں کرسکتے، لیکن اسلامی قانون کو مؤثر بھی نہیں کرسکتے۔‘‘