کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 85
کیا جارہا ہے، ایسے ہی حدود کیسوں میں بھی چلایا جاسکتا ہے۔ پھریہ تو ایک عبوری دور ہے اور عبوری دور کی کئی مجبوریاں ہوتی ہیں۔
آپ کہیں گے کہ جج اجتہاد کرنے کے قابل نہیں ،میں کہتاہوں کہ قرآن و سنت کی اتھارٹی قائم کردو اور پھر اس کے مطابق ججوں کی ٹریننگ شروع کردو اور اس دوران جو عبوری دور ہوگا اس کو ایک خاص وقت تک برداشت کیا جائے جیسا کہ آج برداشت ہورہا ہے، ساتھ ساتھ علماے دین اور بار کے وسیع المطالعہ قانون دانوں کا تعاون چلتا رہے۔ اصلاحِ احوال کی ایسی کوششیں جاری رہنا چاہئیں۔
انصاف: حدود آرڈیننس کے سلسلہ کی اُلجھنیں اور ان کا حل آپ نے بیان کردیا ہے۔اب ہم ’جیو‘ کی بجائے درست سوالات تیارکرسکتے ہیں۔
مولانا مدنی : جنگ کے نمائندہ عبدالمجید ساجد نے مجھ سے انٹرویو لیتے وقت یہ کہا کہ یہ سب غلط پروپیگنڈہ ہورہا ہے۔ ہم اصل صورتِ حال سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم آپ کا انٹرویو مکمل شائع کریں گے، لیکن جب جنگ کا جمعہ ایڈیشن آیا تو ایک دو باتیں ذکر کرنے کے علاوہ باقی تمام انٹرویو چھوڑ دیا گیا۔جیساکہ میں نے ذکر کیاکہ جنگ اورجیو نے یہ سوال غلط ترتیب دیا ہے کہ کیا حدود آرڈیننس حدود اللہ ہیں ؟آپ اس کی بجائے یہ سوال لے کر آگے بڑھائیں کہ ’’ہم حدود آرڈیننس کو حدود اللہ کیسے بنائیں ‘‘ اورمخالفین سے پوچھیں کہ یہ جو تم اس میں ترمیم و اصلاح کی سفارشات پیش کررہے ہو کیا اس سے یہ آرڈیننس خدائی بن جائے گا،یعنی کیا اس طرح حدود آرڈیننس حدود اللہ بن جائے گا؟ نیز اس مسئلہ میں ہمارے ملک کے دستورو قانون اور Anglosaxon Lawکے طریقہ کار کو بھی پیش نظر رکھاجائے اور اسی کے تناظر میں سوالات کئے جائیں۔
دیکھیں یہ سفارش پیش کی گئی ہے کہ اگر عورت زنابالجبر کی FIRدرج کراتی ہے اور پھر اسے ثابت نہیں کرسکی تو اسے تو خود بخود قذف کی سزا نہیں ہوگی بلکہ اس کے لئے علیحدہ کیس دائر کرنا پڑے گا۔لیکن اگر زنا بالرضا ہو اورمدعی FIRکے وقت چار گواہوں کو لانے میں کامیاب نہ ہوسکے تو کیس دائر کرنے والے پرفوراً قذف کی سزالاگو ہوجائے گی اورالگ کیس