کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 84
ہاتھ ہے؟ یقینا مغرب اور اس کے اشاروں پر ناچنے والوں کا، جوچاہتے ہیں کہ زنا بالرضا کے ثبوت کے لئے ایسی شرطیں عائد کردی جائیں کہ وہ جرم ہی نہ رہ جائے اور اگر رہے بھی قابل مؤاخذہ نہ ہو۔ اور زنا بالجبر کو حرابہ (المائدۃ :۳۳) کے تحت داخل کرکے اس کو قابل راضی نامہ بناکر عملاً اس کی سزا کوختم کردیا جائے کیونکہ اس سے اگلی آیت ﴿إلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ﴾سے یہی ثابت ہوتا ہے بلکہ اس سے تو یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگرمجرم گرفتار ہونے سے قبل توبہ کرلے توبے چاری عورت سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور نہ زنا بالجبر کا شکارہونے والی عورت کو راضی کرنے کی ضرورت ہے حالانکہ زنابالجبر کا ’جرم حرابہ‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ زنا کی سزا قرآن و سنت میں واضح طور پر بیان کردی گئی ہے، اس میں سے زنا بالجبر کو خاص کرکے ’حرابہ‘ کے تحت داخل کرنے کی کوئی دلیل کتاب وسنت میں موجود نہیں ہے، نہ خلفاء راشدین کے دور میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔ لہٰذا یہ ایک کھیل ہے جو ایک منظم سازش کے تحت شروع ہوا ہے۔ حدود آرڈیننس پرآج کل اُچھالے جانے والے تمام اعتراضات کے جوابات ہم اپنے مجلے ماہنامہ محدث میں شائع کرتے رہے ہیں۔میرا موقف تو یہی ہے کہ اصل نکتہ کو مضبوطی سے تھامیں اورحدود آرڈیننس کی جزئیات پر عوامی آرا جمع کرنے کی بجائے اصل شرعی بنیادپر لوگوں کو جمع کریں۔حل یہی ہے کہ عوام کی بجائے کتاب وسنت کی مطابقت کا اختیار عدلیہ کو دیاجائے، نہ کہ پارلیمنٹ کو کیونکہ جج بہر حال اعلیٰ علمی صلاحیت کی بنیاد پر تو متعین ہوتا ہے جبکہ اراکین پارلیمنٹ صرف ایک حلقہ کے اکثر عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں ، اُنہیں پورے ملک کا نمائندہ نہیں کہا جا سکتا کجا یہ کہ وہ الہامی شریعت کے نمائندہ قرار پائیں۔ انصاف: لیکن آج ہمارے جج حضرات بھی جس طرح کے آتے ہیں وہ بھی توسامنے ہے؟ مولانا مدنی: یہ درست ہے کہ عدلیہ کی تقرری میں بھی کرپشن پائی جاتی ہے۔میں کہتا ہوں کہ عدلیہ کی شرعی تعلیم وتربیت کا اہتمام کریں تو یہ کرپشن بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی۔ پوری طرح نہ سہی تو اس کمی کااثر خاص خاص کیسوں کے اندر ایک محدود حد تک رہ جائے گا۔ ایسی عدلیہ کو جیسے پہلے بھی دوسرے معاملات میں گوارا کیا جارہا ہے اور ان کے فیصلوں کو تسلیم