کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 83
ہے۔ہمارے ہاں بھی سپریم کورٹ(شریعت بنچ) یافیڈرل شریعت کورٹ میں جب کوئی قانون زیر بحث آتا ہے کہ آیا وہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں تو جج اسی اُصول کے تحت فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی رائے ’کتا ب و سنت‘ کے مطابق ہے اور کون سی نہیں ؟ جب پہلے آپ کے پاس ایک طریق کار موجود ہے تو اسے ہر معاملہ میں عام کردیا جائے۔ یہی اصل حل ہے، حدود آرڈیننس کو حدود اللہ بنانے کا۔ ہر جج کو اسی طریقہ کار کے مطابق کام کرنے دیا جائے لیکن اس کے لئے پہلے ججوں کی تقرری (Selection) اورتعیناتی کابھی شرعی معیار مقرر کرنا ضروری ہوگا،چنانچہ ضروری ہے کہ موجودہ اور آئندہ مقرر ہونے والے ججوں کو اس معیار کے مطابق تیارکیاجائے۔ انصاف:اس وقت بجٹ اور دیگر کئی اہم ایشوز زیربحث ہیں تو ان حالات میں حدود کی بحث کو شروع کرنے کا مقصد کیاہے ؟ مولانا مدنی: اس وقت ہمارے ملک کا پورا نظام دگر گوں ہے۔اگرچہ اقتصادی نظام، سیاسی نظام توسب پہلے ہی مغرب سے درآمد شدہ اور اس کے زیر اثر چل رہا ہے،لیکن مغرب کے برعکس محکوم ہونے کے ناطے ہماری عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، فوج،بیورو کریسی اور ہر محکمہ کرپشن کی زد میں ہے۔ ان تمام مسائل کو نظر انداز کرکے حدود آرڈیننس کو میڈیا پر اُچھالنے کی وجہ یقینا یہی ہے کہ سیاست اور معیشت کی طرح ہم اپنی معاشرت کو بھی مغربی تہذیب کے سامنے سرنگوں کردیں اور یہی اس وقت مغرب کی ہم سے ڈیمانڈ ہے اور اس مقصد کے لئے وہ ہمارے بعض نام نہاد علما یا دانشوروں کو خرید رہا ہے۔ ہمارے ہاں جو این جی اوز کا جال بچھا ہے، ان کو پیسہ کہاں سے ملتا ہے؟ ڈاکٹر محمد فاروق کی’حدود آرڈیننس کا تنقیدی جائزہ‘ کے نام سے ایک معمولی کتاب شائع کرنے کے لئے مبینہ طور پر ایک این جی او(عورت فاؤنڈیشن) کو سات کروڑ روپیہ آخر کس نے دیا ؟اخبارات کے کئی کئی صفحات اور ٹی وی چینل جو اس مقصد کے لئے سرگرم ہے، ان کو فنڈنگ کون کررہا اور کیوں کررہا ہے؟ اور ایک ٹی وی چینل شاہراہوں پر بڑے بڑے بورڈ کیوں لگا رہا ہے؟ حالانکہ شاہراہوں پر اشتہار بازی صحافتی دائرۂ کار میں کبھی شامل نہیں رہی۔ اس کے پیچھے کس کا