کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 82
ہوتا ہے تو یہ مردوں پر بھی ہوتاہے، اس میں حدود آرڈیننس کا زیادہ دخل نہیں بلکہ بے لگام پولیس اور کرپٹ انتظامیہ کا قصور زیادہ ہے۔
اگر حدود آرڈیننس میں کوئی سقم ہے تو اس کا علاج یہ قرآنی اصول ہے: ﴿فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَییئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰه وَالرَّسُوْلِ﴾(النساء:۵۹) ’’جب تمہارا کسی چیز میں جھگڑا ہوجائے تو اسے اللہ اور اسے کے رسول کی طرف لوٹا دو۔‘‘ اور ﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْیٍٔ فَحُکْمُہُ إِلَی اللّٰه ﴾(الشوریٰ:۱۰)’’جس چیز میں تمہارا اختلاف پڑ جائے تو وہاں اللہ کا ہی فیصلہ معتبر سمجھا جائی۔‘‘اس قرآنی اُصول کو حدود آرڈیننس میں بطورِ اتھارٹی اور معیار شامل کردیا جائے اور کتاب وسنت کے مطابق ہونے کا فیصلہ(جو ایک قسم کا اجتہاد ہے)پارلیمنٹ کی بجائے جج کے ہاتھ میں ہونا چاہئے جو درجہ اجتہادپر فائز قرآن و سنت کے علم اور مہارت کی بنیاد پرکیا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر بھانت بھانت کی یہ بولیاں سننا پڑیں گی کہ جی آرڈیننس میں یہ بات غلط ہے، اسے بدلو۔ فلاں غلط ہے، لہٰذا آرڈیننس کو منسوخ کردو۔
انصاف : اب یہ کہا جارہا ہے کہ چار گواہوں کے بغیر مقدمہ درج نہیں کیا جاسکتا اور دوسرا کہ عورتوں کوجیل میں نہیں رکھا جاسکتا؟
مولانا مدنی:حدود آرڈیننس میں گواہوں کی تعداد اور اہلیت کے تعین کے متعلق ماضی میں بھی ایک فیصلہ عدالت ِعالیہ کر چکی ہے۔ (۱۹۹۲،کریمنل لاء جرنل،ص۱۵۳۰) مقدمہ درج کرنے سے قبل اس طرح کی شرطیں یا اس قسم کی آرا مروّجہ قوانین کے ماہرین کی نظر میں بالکل بے وقعت ہیں۔ ایک رائے میں دیتا ہوں اور چند آرا آپ قانون سے ناواقف دوسرے لوگوں سے لے لیں ، لیکن اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلے گا کہ پہلے سے موجودہ اَن گنت آرا میں بعض مزید آرا کااضافہ ہوجائے گا۔ قانونی ماہرین کے لیے بھی ایسے مسائل کے حل کیلئے وہی رہنما اُصول ہے جوقرآن نے بیان کردیاہے کہ ’’اللہ ورسول کی طرف لوٹا دو۔‘‘ (النساء:۵۹)
آپ توجہ فرمائیں کہ ہماری اسلامی فقہ کے ایک ایک مسئلہ میں اکابر ائمہ کرام کی آرا بھی مختلف ہو جاتی ہیں ، ہم جن کے پاؤں کی خاک کے برابربھی نہیں ہیں۔دنیا بھر کے اہل علم اپنے فتویٰ میں کتاب وسنت کا یہی اُصول استعمال کرتے ہیں جو سورۃ النساء میں بیان ہوا