کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 81
ان مسائل کا حل تلاش کرے۔ علاوہ ازیں جس طرح میں کہہ چکا ہوں کہ عدلیہ کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ شریعت کی ماہر اور اہلیت ِاجتہادکی حامل ہو۔ ہمارے ملک میں اس مسئلہ کا فوری حل یہی ہے کہ مذکورہ بالا قانونی دفعہ کے ذریعہ حدود آرڈیننس پر کتاب وسنت کی اتھارٹی قائم کردی جائے، اس کی روشنی میں ایسے جزوی مسائل کا فیصلہ جج کریں۔ گواہان کی تعداد وغیرہ پر اعلیٰ عدلیہ پہلے بھی فیصلے دے چکی ہے کہ اگر حدود کے متعلق شہادت وغیرہ کے سلسلہ میں کوئی ایسے ناگزیر حالات پیدا ہوں تو اس کا فیصلہ عدالت کرسکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج جو لوگ کبھی توہین رسالت پر اورکبھی عورتوں کے حوالے سے ایسے قوانین پر …جن کی کم از کم روح شرعی ہے… اعتراض کررہے ہیں تو ان کا مقصد عوام کو پریشان خیالی میں مبتلا کرکے اُنہیں شریعت سے بدظن کرنا اور اینگلو سیکسن لاز اور مغربی تہذیب کا دل دادہ بنانا ہے۔یہ مذموم مقصد پورا نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمارا قدم کسی قانون کی اصلاح کے ذریعے آگے شریعت کی طرف بڑھنا چاہئے۔ انصاف: کہا یہ جاتا ہے کہ حدود آرڈیننس کے نفاذ کے بعد عورتوں پر ظلم و زیادتی بڑھ گئی؟ مولانا مدنی: اس واویلاکا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔دراصل یہ امر معاشرے میں روزافزوں بے حیائی، مغربی تہذیب کی یلغار کا اثر ہے جو عورت کو بظاہر تحفظ دینے اور درحقیقت اسے سربازارِ ننگا اور رسوا کرنے کا علَم لے کر اُٹھی ہے۔مغرب زدہ لوگوں کو اس بات کی بڑی تکلیف ہے کہ پہلے تعزیراتِ پاکستان میں زنا بالرضا کی کھلی چھٹی تھی لیکن حدود آرڈیننس میں زنابالرضا کو بھی بدکاری اور ناقابل ضمانت جرم قرار دے دیا گیا ہے۔پہلے سزا صرف مرد کو ملتی تھی، بدکاری پر کنواری، بیوہ اور مطلقہ عورت کے لئے کوئی سزا نہ تھی بلکہ خاوند بیوی کی رضا مندی سے اس سے پیشہ بھی کروا سکتا تھا۔ اب حدود آرڈیننس سے عورت کو بھی بدکاری کرنے پر سزا کا حق دار قرار دے دیا گیا۔ یہ وہ تکلیف ہے جو تہذیب ِمغرب کے ان اسیروں کو بے چین کررہی ہے اور یہ سارا شور اس لئے ہے کہ زنا کاری و بدکاری کو دوبارہ سند ِجواز مل جائے اور اس کے لئے تمام مال و زر اور مواد مغرب کی طرف سے فراہم ہورہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ملک میں روزافزوں پولیس دھاندلی او رکرپشن کے نتیجے میں واقعی عورتوں پر ظلم