کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 80
کے مطابق حدود آرڈیننس میں کوئی ایسا اضافہ نہیں کیا جاسکتا کہ پورے دستور وقانون کا حلیہ ہی بگڑ جائے، کریمنل کوڈ، پروسیجر کوڈ یا پولیس ایکٹ کا تیا پانچا ہوجائے، اس لئے یہ اضافہ اور ترامیم ناقابل عمل ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان میں جرم صرف بدکاری کا ہی تو نہیں ہے، حدود کے ہی چار قانون اور ہیں۔ قصاص ودیت آرڈیننس بھی ہے اور قانونِ شہادت بھی، اسی طرح کے دیگر سنگین جرائم بھی ہیں۔ مثلاً زنا سے بھی زیادہ سنگین جرم توہین رسالت کا ہے اور یہ جرم ایسا ہے کہ اس کے مرتکب کو سزا دینے کے لئے حکومت کی بھی شرط ضروری نہیں۔ دیگر عام جرائم کی سزا صرف حکومت ہی دے سکتی ہے ،لیکن توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں اگر حکومت لیت و لعل کرے تو مسلمان کی غیرت قابل مؤاخذہ نہیں ہے۔پھر پاکستان میں بغاوت کا جرم بھی کتنا سنگین ہے؟ ایسے جرائم کے لئے گواہوں کو پیشگی ساتھ لانے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ میری رائے یہ ہے کہ اس طرح کا طریق کار اختیارکرنے سے پورا دستور و قانون ایک تماشہ بن جائے گا۔ ہمیں اپنے ملک کے حالات، دستور اور قانون کی روشنی میں بات کرنا چاہئے۔ پاکستان میں دستور و قانون کے ایک بڑے سیٹ اَپ میں سے ایک قانون جرمِ زنا آرڈیننس VII( ۱۹۷۹ء) بھی ہے۔ اس سلسلے میں قانونی طریقہ کار سے ناواقف دانشور عوام کے سامنے حدود آرڈیننس کی غلط تشریحات کے ذریعے جو اعتراضات پیش کررہے ہیں اس کا حل یہ نہیں ہے کہ کیس رجسٹر ہونے سے پہلے چار گواہ سامنے موجود ہوں ، چاہے وہ عورتیں ہوں یامرد ہوں یا وہ گواہ کس طرح کے ہوں ؟کیونکہ قانون کی زبان عوام کا مسئلہ نہیں او رنہ قانون کے فیصلے میڈیا پر عوام نے کرنے ہیں۔ قانون کا ماہرانہ مطالعہ کئے بغیرعوام کو کیا معلوم کہ گواہوں کی کیا حیثیت ہے اور گواہی کا انداز کیا ہونا چاہئے اوراس کی شرائط کیا ہیں ؟ اس لئے ایسے تمام مسائل کو اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے عوام کا موضوع بنانے کی بجائے قصاص و دیت کے قانون کی طرح حدود آرڈیننس کے اوپر چھتری کی طرح ایک دفعہ رکھ دی جائے کہ اس میں جو بھی ضمنی یا نئے مسائل اُٹھیں گے یا اہل فکر و دانش کو اس پر جو بھی اعتراض ہوں گے وہ فیڈرل شریعت کورٹ کے سامنے پیش کریں جو قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعہ