کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 79
صورت حال اور شرعی دلائل کے تناظر میں جو رائے قرآن وسنت کے مطابق سمجھے، اس کے مطابق فیصلہ کردے ،کیونکہ جج کسی اور کے اجتہاد کا مقلد نہیں ہوتا بلکہ وہ براہِ راست کتاب اللہ اور سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پابند ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بیوروکریسی یا پارلیمنٹ کی قانون سازی اور اجتہادات کا ججوں کو مکلف بناناماہرین عدلیہ پر بے اعتمادی کا اظہارہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں حدود آرڈیننس سمیت وہ تمام قوانین جو شریعت کے حوالہ سے نافذ کئے گئے ہیں ، ان کے بارے میں یہ مشکل درپیش ہے کہ اُنہیں انسانوں نے اپنی زبان میں تیار کیاہے، اور پھر ان کا نفاذ ایک خاص طریقے سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہوتی رہتی ہے جب کہ وحی کے الفاظ جامع ہوتے ہیں اور عالمگیر بھی یعنی ہر دور کے بدلتے تقاضوں اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ میں آپ کے سامنے ایک بہتر تجویز رکھ رہاہوں جو پوری اسلامی تاریخ میں رائج رہی ہے او رپاکستان میں شریعت کی قانون سازی والی صورتِ حال کو عبوری دور کا تقاضا سمجھتا ہوں کیونکہ وہ قانون جو انسانوں کی تعبیر سے دفعہ وار تقنین کی صورت میں یہاں نافذ ہوگا، اس کے اندر یہ مشکل ہمیشہ پیش آئے گی کہ اس قانون میں وقتاًفوقتاً بہت ساری تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی۔اس لئے میرے نزدیک اصل حل یہ ہے کہ قانون بنانے سے پہلے اجتہاد کی بجائے خود قرآن وسنت کا نفاذ فیصلہ کرنیوالے ججوں کو اجتہاد کے قابل بنانے کا زیادہ اہتمام کیا جائے۔
انصاف: حالیہ بحث میں ایک حل یہ پیش کیا جارہا ہے کہ پہلے چار گواہ موجود ہوں تو حدود کا مقدمہ درج کیا جائے،ا س کے بغیر مقدمہ قطعاً درج نہ کیا جائے۔آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟
مولانا مدنی : درحقیقت یہ باتیں ان لوگوں کی طرف سے کہی جارہی ہیں جو دستور، قانون اور اس کے طریق کار سے ناواقف ہیں۔ ہمارے ہاں دستور کا ایک باقاعدہ پروسیجر ہے، پھر اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا ایک لمبا پروسیس ہے جس کا ایک مسلمہ قانونی کردار ہے۔میں ایک عرصہ شریعت کے حوالے سے مروّجہ قوانین اور ضابطہ قانون پڑھاتا رہا ہوں ، اس لئے میرے تجربے