کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 78
وہ دونوں ایک دوسرے کا قتل معاف نہیں کرسکتے۔
آپ کو یہ ساری تفصیل بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم حدود آرڈیننس کے سلسلہ میں بالکل غلط راہ پر چلے جارہے ہیں۔ ہمارے سوالوں اور اعتراضات کی بنیاد ہی غلط ہے جس کے پس پردہ شرعی حدود کو ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے۔چنانچہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک غلط سوال تیار کیا گیا کہ کیا حدود آرڈیننس خدائی قانون ہے؟ یعنی حدود آرڈیننس حدو د اللہ نہیں ہیں ؟ ٹیلی ویژن والوں نے تمام جواب دینے والوں کو اس کا پابند کیا کہ وہ صرف چند جملوں میں اس کا جواب دیں۔ حالانکہ سوال یہ ہونا چاہئے تھا کہ ’’حدود آرڈیننس کو حدود اللہ کیسے بنایا جائے؟‘‘ کیونکہ ہماری زبان میں بیان کردہ حدود آرڈیننس اللہ نے آسمان سے نازل نہیں کیا بلکہ وہ ہماری طرف سے شریعت کی تعبیر ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں اس وقت کے ماہرین قانون نے تیار کی تھی۔
چنانچہ جب ’جیو‘ نے مجھ سے یہ سوال کیا تو میں نے کہا: ’’ہاں حدود آرڈیننس بعینہٖ حدود اللہ تو نہیں لیکن ان کو حدود اللہ بنایا جاسکتا ہے، اور وہ اس طرح کہ شریعت کو وحی (قرآن وسنت) کے الفاظ میں نافذ سمجھا جائے اور پھر پارلیمنٹ کو جس کی اکثریت شریعت سے نابلد ہونے کی بنا پر اجتہاد کی اہل نہیں ، اس کو اجتہاد کااختیار دینے کی بجائے عدلیہ جو قرآن و سنت کے ماہرین [1]پرمشتمل ہو، کو اجتہاد کا اختیار دے دیا جائے۔ جب مسئلہ پیش آئے تو عدلیہ حدود آرڈیننس کے ساتھ ساتھ کتاب و سنت کو بھی سامنے رکھے اور معاصر اہل علم کی تشریحات کے علاوہ علما کے قدیم اور جدید فقہی ذخیرے اور فتویٰ جات سے بھی استفادہ کرے اور اسلام کے نام پر کئے جانے والے چودہ سو سالہ عدالتی فیصلہ جات سے بھی رہنمائی لے۔ پھر واقعاتی