کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 77
کمزوریوں کے علاج کی غرض سے ایک اہم دفعہ قصاص و دیت آرڈیننس میں یہ رکھی گئی جس سے اس قانون کے اَسقام کا علاج اور اصلاح ممکن ہے۔یہ دفعہ ۳۳۸/ایف ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اس قانون میں اگر ہمیں کوئی ضمنی مسئلہ درپیش ہو یا کوئی پہلو تشنہ معلوم ہویاکوئی نکتہ قابل اصلاح ہو تو قرآن وسنت کی روشنی میں اسے حل کیا جائے گا۔
بعدمیں لاہور ہائی کورٹ کے بعض ججوں نے اس دفعہ کی روشنی میں کئی اہم فیصلے صادر بھی کئے۔ مثلاً لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ … جوتین ججوں جسٹس سردار محمدڈوگر، جسٹس خلیل الرحمن خان اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے پر مشتمل تھا… کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا کہ اگر مقتول کے ورثا صلح کرکے قصاص معاف کردیں تو کیا اس کے باوجود بھی قاتل کو کوئی تعزیری سزا دی جاسکتی ہے یانہیں ؟ تو اُنہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ قرآن و سنت کی رو سے کسی مزید جرم کے بغیر کوئی تعزیری سزا نہیں دی جانی چاہئے۔ چونکہ ہائی کورٹ خود کوئی قانون سازی یاترمیم نہیں کرسکتا لہٰذا اُنہوں نے اپنے اس آبرزرویشن کو پارلیمنٹ بھیجنے کی سفارش کی کہ اس کے مطابق قانون سازی کی جائے۔
ایسے ہی قصاص و دیت آرڈیننس کے حوالے سے یہ نکتہ پیش آیا کہ اس قانون کی رو سے مقتول کا کوئی بھی وارث قاتل کا قصاص معاف کرسکتا ہے، خواہ بیوی ہو یا خاوندتھا۔بعض دفعہ ایسے بھی ہوتا ہے کہ عورت کا آشنا اس کے خاوند کو قتل کردیتا ہے۔پھر وہ عورت ہی اپنے شوہر کی وارث ہونے کے ناطے اپنے آشنا (قاتل) کو معاف کردیتی ہے تو صورتِ حال پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ ہمارے ملک میں آشنائی کے ایسے کئی واقعات بھی ہوئے۔ ایسی صورتحال میں ہائی کورٹ نے اسی دفعہ ۳۳۸/ایف کے تحت یہ سفارش کی کہ یہ بات شریعت کے منافی ہے لہٰذا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کے مطابق میاں بیوی کو آپس میں معافی کا اختیار نہیں ہونا چاہئے، بلکہ معافی کا اختیار مقتول کے صرف ان اولیاء (خاندانی ذمہ داروں ) کو حاصل ہے جو خاندان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ رشتہ دار وہ ہیں جنہیں علم وراثت کی اصطلاح میں ’عصبہ ‘کہا جاتا ہے مثلاً بھائی، بیٹا، باپ، دادا وغیرہ۔ خاوند بیوی چونکہ آپس میں عصبہ نہیں ہوتے اور ایک کی وفات کی صورت میں زوجین کا باہمی تعلق کئی اعتبار سے منقطع ہوجاتاہے لہٰذا