کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 76
بیان کردی گئی ہے، اب کیا ہم اپنے الفاظ میں اس سے بہتر کوئی تعبیر پیش کرسکتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر غلام اسحق خان خاموش ہوگئے۔
انصاف: کیا ہمارے مروّجہ قانونی نظام اور عدالتوں کے لئے یہ تصور اجنبی نہیں ، اس پر عمل کس طرح ہوگا؟
مولانا مدنی: یہ تصور پاکستانی قانون میں بالکل نیا نہیں ، ہماری اعلیٰ عدالتوں (Superior Courts) کے بعض فیصلے ایسے موجود ہیں جن میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ کتا ب و سنت اپنی معروف شکل میں ہی نافذ ہیں او راگر کوئی متبادل قانون وضع نہیں ہوتا تو کتاب و سنت کا اسی طرح نفاذ ہوگا۔مثال کے طور پر میں آپ کے سامنے ۱۹۹۱ء میں سپریم کورٹ (شریعت بنچ) کا ایک فیصلہ ذکر کرتا ہوں۔ ہوا یوں کہ فیڈرل شریعت کورٹ نے ۱۹۸۰ء میں قصاص و دیت کے متعلق تعزیراتِ پاکستان اور ضابطہ فوجداری کی ۵۶ دفعات کو قرآن وسنت کے منافی قرار دے رکھا تھا جو حکومت کی طرف سے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی بنا پرعملاً معطل تھا۔ جب ۱۹۹۰ء میں سپریم کورٹ نے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ کی توثیق کرتے ہوئے حکومت کو ۹ ماہ کے اندر اندر نیا قانون لانے کا پابند کردیا تو بینظیر حکومت نے لیت و لعل شرو ع کردی اور ۲۳/ مارچ ۱۹۹۱ء کو ۹ ماہ کی مدت گزر جانے کے باوجود حکومت کا تقاضا تھا کہ اس کی مدت میں غیر معینہ توسیع کردی جائے۔ اسی دوران ۲/اگست ۱۹۹۱ء کو بے نظیر حکومت ختم ہوکر عبوری حکومت قائم ہوگئی۔ اس وقت سپریم کورٹ (شریعت بنچ) کے سربراہ جسٹس افضل ظلہ تھے۔ اب نئی حکومت نے تبدیلی ٔحکومت کا بہانہ بنا کر جب مزید تاریخوں کا مطالبہ کیا تو سپریم کورٹ کے اس فل بنچ نے کہا کہ اب بہت ہوچکا، دس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے،ہم غیر محدود مہلت دینے کے متحمل نہیں۔چنانچہ آخری حتمی تاریخ اب ۱۲/ ربیع الاول مقرر ہے۔ اس دوران حکومت کو چاہئے کہ مذکورہ ۵۶ دفعات کی بجائے قصاص ودیت کا متبادل قانون پیش کرے اور ساتھ یہ وضاحت بھی کردی کہ اگر اس تاریخ تک متبادل قانون نہ لایا گیا تو پھر قرآن و سنت جیسا کچھ بھی ہے، وہی نافذ سمجھا جائے گا اور جج قرآن وسنت کے احکامات کی روشنی میں ہی فیصلے کریں گے۔ اس پرحکومت کے پاس قانون کا جیساکچھ ڈرافٹ تیار تھا، اسے ہی لاگو کردیا گیا۔ لیکن اس ڈرافٹ قانون کی