کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 75
ہمیشہ کتاب و سنت کی نصوص کی پابندی کرتے ہوئے ائمہ فقہا کی تشریحات و اجتہادات کی روشنی میں پیش آمدہ مقدمات کے فیصلے کرتے ہیں۔آج بھی سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں حدود اللہ کو اسی اندازسے نافذ کیا جاتاہے کہ فوجداری جرائم کے فیصلے کتاب و سنت کو سامنے رکھ کر ہوتے ہیں۔ اس لئے وہاں کوئی بھی حدود اﷲ کو نافذ ہونے کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتا بلکہ لوگ سزاکو اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھ کر بطیبِ خاطر قبول کرتے ہیں کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حد کے نفاذ کوگناہوں کا کفارہ قرار دیا ہے۔
شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں جب سعودی عرب میں بڑی شدومد سے بعض عرب دانش وروں کی طرف سے یہ تحریک چل رہی تھی کہ جدید انداز میں شریعت کی پہلے تقنین(قانون سازی) ہونی چاہئے پھر ججوں کو اس کا پابندبنا دینا چاہئے کہ وہ اس Legislationکے مطابق فیصلے کریں تو مفتی اکبر شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ او ران کے شاگردِ رشید شیخ عبدالعزیز بن باز (جو بعد میں سعودی عرب کے مفتی اعظم بنے) نے قرآنِ کریم کی اسی مذکورہ بالا آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ما أنزل اللّٰه کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیاہے، کیا ہمارا شریعت کی دفعہ وار قانون سازی کرنا ما أنزل اللّٰه قرا ر پاسکتا ہے؟ قطعاً نہیں ،کیونکہ اہل علم کا اجتہاد، قدیم یا جدید فقہ تو ہوسکتا ہے، لیکن اس اجتہاد کو ما أنزل اللّٰه نہیں کہا جاسکتا۔
یہی بات وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس جناب گل محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس وقت کہی تھی جب اعلیٰ سطح کے ایک عدالتی وفد نے اس وقت کے صدر مملکت جناب غلام اسحق خان سے سفارش کی کہ ججوں کو پاکستان میں کتاب و سنت کی بہتر سے بہتر ٹریننگ دینے کے انتظامات کئے جائیں اور اُنہیں مزید اعلیٰ تربیت کے لئے اسلامی ممالک میں بھیجا جائے تاکہ وہ عملاً وہاں حدود اللہ کے نفاذ کا مشاہدہ بھی کرسکیں۔ میں بھی اس وفد میں شامل تھا۔ جناب غلام اسحق خان نے اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے شریعت کی متفقہ دفعہ وار قانون سازی پر زور دیا تو جناب جسٹس گل محمد خان نے جو جواب دیا، وہ واقعی حدود اﷲ کے نفاذ کا صحیح حل تھا۔ اُنہوں نے فرمایا: ’’شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے (کتاب و سنت کی صورت میں ) بہترین طریقہ پر