کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 72
قرآن مجید میں پہلے لفظ أنيدکی مثالیں اور نظیریں یہ ہیں :
1. ﴿وَاذْکُرْعَبْدَنَادَاؤ‘دَ ذَاالْأَیْدِ … ﴾ (ص ٓ :۱۷) میں ذا الأَیْدِکے معنی ’قوت والا‘ کے ہیں۔
2. اسی’أنیْدٍ‘کے افعال و مشتقات میں ماضی یعنی أیَّدَہ، أَ یَّدَھُمْ،أَیَّدَکَ،أَیَّدَکُمْ،أَیَّدْنَا اور مضارع یعنی یؤَیَّدُکے الفاظ قرآنِ مجید میں مستعمل ہیں۔
دوسرے لفظ یَدکے قرآنی نظائر یہ ہیں :
1. واحد کی شکل میں یَدٌ،یَدٍ،یَدَہ اور،یَدَکَ وغیرہ
2. تثنیہ کی صورت میں یَدَا،یَدَاکَ، اور یَدَاہ ٗ وغیرہ
3. جمع کے طور پر أیدي أَیْدِيْ،أَیْدِيَ،اَیْدِیْنَا،أَیْدِیَھُمْ ،أَیْدِیَھُنَّ اور وغیرہ
گویا یَدٌ کے یہ تمام قرآنی نظائر ’ایک ہاتھ‘، ’دو ہاتھ‘ اور ’سب ہاتھ‘ کے معنوں میں جا بجا موجود ہیں۔یہاں لفظ أنيد رسم عثمانی میں ي کے علاوہ ایک اضافی دندانے کے ساتھ لکھا جاتا ہے ، تاکہ أنيد کايد سےاشتباه باقی نہ رہے۔ کیونکہ مادّہ (Root) کے اعتبارسے أنيد کا پہلا حرف ہمزہ ’ء‘ہے۔ جبکہ يد کا پہلا اور آخری لفظ دونوں ’ي‘ہیں۔
اب سوچنے کی یہ بات ہے کہ جو لوگ قرآنی الفاظ کے مادّوں (Roots)ہی سے بے خبر ہوں اوراس کے دو مختلف الفاظ میں امتیازنہ کرسکتے ہوں ، اُن کی عربیت پرکیسے اعتماد کیاجاسکتا ہے؟ … اور جب اُن کی عربیت کا یہ حال ہے تو اُن کی تفسیر کا کیا حال ہوگا؟؟