کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 71
اب یہ جاننااہل علم کا کام ہے کہ قرآنی لفظ القاسطون کے معروف اور قطعی معنی کیا ہیں ، ’نافرمان‘ یا کچھ اور؟ کیونکہ ’نافرمان‘ تو ’الفاسقون‘ کا ترجمہ ٹھہرے گا جو یہاں مستعمل نہیں ہوا۔ اُن کے استاد نے اس مقام پراس لفظ کے معنی ’جوبے راہ ہوئے‘ کے کئے ہیں۔
مولانا امین احسن اصلاحی کی عربیت کی ایک مثال
جہاں تک غامدی صاحب کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی عربیت کا معاملہ ہے تو واضح رہے کہ ہمیں غامدی صاحب کے علاوہ اس بارے میں اصلاحی صاحب پر بھی اعتماد نہیں ہے۔ تفسیر ’تدبر قرآن‘ میں کئی مقامات پر عربیت کے خلاف ترجمہ و تفسیر موجود ہے۔ مثال کے طور پر ایک مقام ملاحظہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ﴾ (الذاریات:۴۷)
وہ اس آیت کا پہلے یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ
’’اور آسمان کو ہم نے بنایا قدرت کے ساتھ اور ہم بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں۔‘‘
پھر اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’أَیْدٍ کے معروف معنی تو ہاتھ کے ہیں لیکن یہ قوت و قدرت کی تعبیر کے لئے بھی آتا ہے … یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس قدرت و عظمت کی طرف توجہ دلائی ہے جس کا مشاہدہ ہرشخص اپنے سر پر پھیلے ہوئے آسمان اور اس کے عجائب کے اندر کرسکتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن:۷/۶۲۶)
اس مقام پر مولانا اصلاحی صاحب کی پہلی غلطی یہ ہے کہ اُنہوں نے لفظ أنيد کو أيد ( يدء کی جمع )سمجھ لیا جو کہ غلط ہے کیونکہ پہلے لفظ أنيد کا مادہ ء ي د ہے جبکہ دوسرے لفظ أيد کامادّہ ي دي ہے۔ عربی میں پہلے کے معنی ’قوت و طاقت ‘کے آتے ہیں اور دوسرے کے’ہاتھ‘ کے۔
پھر یہاں پر مولانا صاحب کی دوسری غلطی یہ ہے کہ اُنہوں نے بزعم خویش ایک لفظ کے معروف معنی چھوڑ کر خود اس کے’غیر معروف‘ معنی مراد لے کر اُس کی تفسیر کردی۔ جو اُن کے اپنے اُصول کے خلاف بھی ہے اور اُن کے شاگردِ رشید غامدی صاحب کے اُصول کے خلاف بھی کہ قرآنی الفاظ کے صرف معروف معنی ہی لئے جاسکتے ہیں۔