کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 70
اور اُن کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے اسی آیت کا درج ذیل ترجمہ کیا ہے: ’’کہہ دو کہ وہی ہے جس نے تم کو زمین میں پھیلایاہے۔‘‘ (تدبرقرآن، جلد۸/ صفحہ ۴۸۹) اب قارئین خود دیکھ سکتے ہیں کہ ذراکم فی الارض میں ذرا (ذال کے ساتھ)کے معروف معنی ’بونے‘ کے ہیں یا’پھیلانے‘ کے۔ ہمارے خیال میں اس مقام پر غامدی صاحب کے اُستاد کا ترجمہ صحیح اور معروف کے مطابق ہے جبکہ اُن کا اپناترجمہ ’غیرمعروف‘ اور ’مجہول‘ ہوگیا ہے اورعربی کے ایک اور لفظ ’زَرَعَ ‘ (زاء کے ساتھ)کا ترجمہ بن گیا ہے۔ اس مثال میں بھی غامدی صاحب نے اپنے بنائے ہوئے اُصول کی خود خلاف ورزی کی ہے۔ 4. چوتھی مثال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿کَلَّا بَلْ لَّا یَخَافُوْنَ الآخِرَۃَ﴾ (المدثر:۵۳) اس آیت کا ترجمہ غامدی صاحب نے یوں کیا ہے کہ ’’بلکہ (واقعہ یہ ہے کہ) یہ قیامت کی توقع نہیں رکھتے۔‘‘ (البیان، ص۸۱) اور اُن کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کا درج ذیل ترجمہ کرتے ہیں : ’’ہرگز نہیں ، بلکہ وہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔‘‘ (تدبر قرآن، جلد۹/ ص۴۲) اب یہ فیصلہ کرنا اہل علم کا کام ہے کہ آیت کے لفظ ’ یَخَافُوْنَ ‘ کی قطعی دلالت اور اس کے معروف معنی بقول غامدی صاحب ’توقع رکھنے‘ کے ہیں یااُن کے استاد نے اس لفظ کو اس کے معروف معنوں میں لیا ہے: ’خوف رکھنا یاڈرنا‘۔ہماری رائے میں غامدی صاحب کے استاد کا ترجمہ صحیح ہے اور یہی اس کا معروف مفہوم ہے جبکہ غامدی صاحب نے اپنے ہی اُصول کے خلاف اس لفظ کا ایک’غیرمعروف‘ اور’مجہول‘ ترجمہ کیا ہے۔ پانچویں مثال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَأمَّا الْقَاسِطُوْنَ فَکَانُوْا لِجَھَنَّمَ حَطَبًا﴾ (سورۃ الجن:۱۵) اس آیت کا ترجمہ غامدی صاحب نے یوں کیا ہے کہ ’’اور جو نافرمان ہوئے (اُن کا انجام پھر یہی ہے) کہ وہ دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔‘‘ (البیان: ص۶۱)
[1] رپورٹ خواتین حقوق کمیشن ۱۹۹۷ء،ص ۷۱