کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 69
ہوں کہ یہ آخری سورتوں سے ہوتی ہوئی پیچھے کو آرہی ہے اور ابھی صرف پہلی جلد طبع ہوئی ہے جوسورۃ الملک سے سورۃ الناس تک ہے اور باقی تفسیر ابھی نامکمل ہے)سورۃ الہب کے الفاظ ﴿تَبَّتْ يَدا أبِي لَهَبٍ وتَبَّ ﴾کا ترجمہ غامدی صاحب نے یوں کیا ہے کہ
’’ابولہب کے بازو ٹوٹ گئے۔‘‘ (البیان: ص۲۶۰)
اور اُن کے ’استاذ امام‘ امین احسن اصلاحی نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ
’’ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے۔‘‘ (تدبر قرآن: جلد۹/ ص۶۳۱)
اب یہ فیصلہ کرنااہل علم کا کام ہے کہ لفظ ’یدا‘ کے معروف معنی ’بازو‘ کے ہیں یا’دونوں ہاتھ‘ کے۔کیونکہ استاد امام اور شاگرد رشید دونوں ہی معروف معنی لیتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ مذکورہ دونوں ترجموں میں ایک معنی ہی معروف ہوسکتے ہیں اوردوسرے معنی لامحالہ ’غیر معروف‘ یا’مجہول‘ قرار پائیں گے۔
2. دوسری مثال: سورۃ العلق کی پہلی آیت ﴿ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ کا ترجمہ غامدی صاحب نے یوں کیا ہے کہ
’’اُنہیں پڑھ کرسناؤ (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے اُس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا ہے۔‘‘ (البیان: ص۲۰۷)
ان کے اُستاذِ گرامی نے اسی آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے :
’’پڑھ، اپنے اُس خداوند کے نام سے جس نے پیدا کیا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن:جلد۹/ ص۴۵۱)
اب یہ فیصلہ کرنا اہل علم کا کام ہے کہ عربی زبان میں لفظ اقْرَأ (بغیرعلیٰ کے صلہ) کے معروف معنی’پڑھ‘ کے ہیں یا’اُنہیں پڑھ کرسناؤ‘ کے ہیں۔ اور اُستاد اور شاگرد میں سے کس نے اپنے ہی بنائے ہوئے اُصولوں کا صحیح تتبع کیا ہے۔
3. تیسری مثال: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
﴿قُلْ ھُوَ الَّذِيْ ذَرَأَکُمْ فِيْ الأَرْضِ﴾ (الملک:۲۴)
اس کا ترجمہ غامدی صاحب نے یہ کیا ہے کہ
’’ان سے کہہ دو، وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں بویا۔‘‘ (البیان: ص۲۵،۲۶)
[1] نور محمد بنام سرکار 1999 PCr.LJ.2140،مسماۃ فوزیہ بنام سرکار 1995 PCr.LJ.