کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 68
اب غامدی صاحب کے اُصولوں کی روشنی میں یہ ترجمہ کرنا کہ ’’چور کے دونوں بازو کاٹ دیے جائیں۔‘‘ کیا درست ترجمہ ہوگا اور کیا اسلامی شریعت میں چوری کی یہی سزا ہے؟ کیا پوری اُمت ِمسلمہ میں سے کوئی ایک مجتہد، فقیہ اور مفسر اس بات کو صحیح تسلیم کرتا ہے؟ کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چوری کی سزا پر کسی چور کے دونوں ہاتھ کاٹے تھے۔ ھاتوا برھانکم إن کنتم صادقین !
بلکہ اسلامی شریعت میں جس امر پر اجماعِ اُمت ہے جو ایک سنت ِثابتہ اور غامدی صاحب کے نزدیک تواتر عملی ہے یعنی جو امر اُمت کے متوارث عمل سے ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ جرم ثابت ہونے پرچور کا صرف ایک ہاتھ کاٹا جائے گا اور وہ بھی دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا، بایاں نہیں کاٹا جائے گا اور یہ دایاں ہاتھ اس وجہ سے نہیں کاٹا جائے گا کہ چوری کا صدور دائیں ہاتھ سے ہوا ہے بلکہ اس لئے کہ چوری کی حد یہی ہے کہ چور کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے خواہ اُس نے چوری بائیں ہاتھ سے کی ہو۔
یہ صرف ایک مثال ہے، ورنہ غامدی صاحب کے خود ساختہ تمام اُصولوں کو اگر تسلیم کرلیا جائے تو اسلام کے متوازی ایک نئی شریعت ایجاد ہوجائے گی جس میں احادیث ِصحیحہ اوراجماع کا انکار ہوگا، جس میں مرتد کی سزا قتل نہیں رہے گی۔شادی شدہ زانی کے لئے صرف سو کوڑے کی سزا ہوگی، اسے سنگسار نہیں کیا جائے گا۔ البتہ جو کنوارا زنابالجبر کرے گا اُسے سنگسار کیا جائے گا۔ حدود میں بھی عورت کی گواہی ہوگی اور مرد کی گواہی کے برابر ہوگی۔ قتل خطا میں مرداور عورت کی دیت برابر ہوجائے گی۔ قرآن کی صرف ایک قراء ت (حفص) صحیح ہوگی باقی قراء تیں عجم کا فتنہ قرار پائیں گی اور اُمت ِمسلمہ کے اجماعی عقیدے کے بر خلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہوگی۔ اگر کوئی اللہ کا بندہ اعتراض کرے گا تو جواب میں تاویلاتِ فاسدہ کا انبارلگا دیا جائے گا۔
خودساختہ اُصولوں کی خود مخالفت
اب ہم غامدی صاحب کے ایسے کھلے تضادات واضح کریں گے جن میں اُنہوں نے اپنے خود ساختہ اُصولوں کا خود ہی خون کیا ہے۔ اس سلسلے میں چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
1. پہلی مثال: غامدی صاحب نے اپنی اُلٹی تفسیر البیان (میں اِسے اُلٹی اس لئے کہتا