کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 66
’’اس (قرآن) کے الفاظ کی دلالت اس کے مفہوم پر بالکل قطعی ہے۔ یہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے پوری قطعیت کے ساتھ کہتا ہے اور کسی معاملے میں بھی اپنا مدعا بیان کرنے سے ہرگز قاصر نہیں رہتا۔ اس کا مفہوم وہی ہے جو اس کے الفاظ قبول کرلیتے ہیں ، وہ نہ اس سے مختلف ہے نہ متبائن۔ اس کے شہر ستانِ معانی تک پہنچنے کا ایک ہی دروازہ ہے اور وہ اس کے الفاظ ہیں۔ وہ اپنا مفہوم پوری قطعیت کے ساتھ واضح کرتے ہیں۔‘‘ (میزان:صفحہ ۲۴ ، طبع دوم ) پھر اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’قرآن کا کوئی لفظ اور کوئی اُسلوب بھی اپنے مفہوم کے اعتبار سے شاذ نہیں ہوسکتا۔ وہ اپنے مخاطبین کے لئے بالکل معروف اور جانے پہچانے الفاظ اور اسالیب پر نازل ہواہے۔ زبان کے لحاظ سے اس کی کوئی چیز اپنے اندر کسی نوعیت کی غرابت نہیں رکھتی، بلکہ ہر پہلو سے صاف اور واضح ہے۔ چنانچہ اس کے ترجمہ و تفسیر میں ہر جگہ اس کے الفاظ کے معروف معنی ہی پیش نظر رہنے چاہئیں ، ان سے ہٹ کر ان کی کوئی تاویل کسی حال میں قبول نہیں کی جاسکتی۔‘‘ (میزان:صفحہ ۱۸ ، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ء ) اس کے بعد اپنے موقف کودرج ذیل مثالوں سے واضح کرتے ہیں : ’’وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ میں النَّجْمُ کے معنی ’تاروں ‘ ہی کے ہوسکتے ہیں۔ إِلا إِذَا تَمَنّٰی میں لفظ تَمَنّٰی کا مفہوم خواہش اور ارمان ہی ہے۔ أفَلاَ یَنْظُرُوْنَ إلَی الإِبِلِ میں الإبل کا لفظ اونٹ ہی کے لئے آیا ہے۔ کَأَنَّھُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ میں بَیْض انڈوں ہی کے معنی میں ہے۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ میں نحر کا لفظ قربانی ہی کے لئے ہے۔ اور اُسے ’بوٹیوں ‘ اور ’تلاوت‘ اور ’بادل‘ اور انڈوں کی چھپی ہوئی جھلی اور سینہ پر ہاتھ باندھنے کے معنی میں نہیں لیا جاسکتا۔‘‘ (حوالہ مذکور: ص۱۸،۱۹) اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے نزدیک: 1. قرآن کے الفاظ کی دلالت اس کے مفہوم پربالکل قطعی ہوتی ہے اور قرآن کا ہر طالب علم اپنے طور پر اس کے الفاظ کا ایک قطعی مفہوم آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ 2. قرآن کے ترجمہ و تفسیر میں ہر جگہ اس کے الفاظ کے صرف معروف معنی ہی لئے جاسکتے ہیں اور ان سے ہٹ کر ان کی کوئی تاویل قابل قبول نہیں ہوسکتی۔گویا قرآن کے الفاظ کے
[1] یہ بات تو عیسائی بیوی کے حق میں جاتی ہے کہ اگر وہ خاوند پر زناکاری کا الزام ثابت کردے تو طلاق کے ساتھ ساتھ اسے مجرم کو جرمِ زنا کی مروّجہ سزا دلوانے کا استحقاق بھی حاصل ہوجائے۔ اسی طرح حدود قوانین کے ذریعے ایک عیسائی خاوند کو بھی یہ قانونی حق حاصل ہوگیا ہے کہ اگر اس کی بیوی اس پر زنا کاری کا جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگاتی ہے تو وہ اسے اس گھناؤنے طرزِ عمل پر عدالت کے کٹہرے میںلاسکے۔ حقیقت ِحال یہ ہے کہ حدود قوانین عیسائیوں کے قانونِ طلاق میں مداخلت یا مشکلات پیدا کرنے کے بعد، طلاق کے مقدمے کافیصلہ ہوجانے کے بعد مبنی برحق موقف رکھنے والے فریق کو مزید دادرسی کے مواقع مہیا کرتا ہے۔ مذکورہ بالا اعتراض ایک اور بنیاد پر بھی اپنی ’ہمہ گیری‘ سے محروم ہوجاتاہے۔ اور وہ یہ کہ بہت سے عیسائی ممالک میں بھی ’روشن خیال‘ عیسائی فرقوں نے طلاق کے قانون میں اوپر بیان کردہ واحد و جہ میں وسعت پیدا کرلی ہے اور اب خاوند پر زنا کاری کا جھوٹایا سچا الزام لگائے بغیر متعدد دیگر موجبات کی بنا پر بھی عدالتوں کے ذریعے خاوند سے قانونی علیحدگی کا حکم نامہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔  رپورٹ خواتین کمیشن،ص ۷۴