کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 65
کے اس سارے دورانئے میں علمی ارتقا اور فکری خدوخال کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔ آپ کا ’مسئلہ رجم‘ پر اختلاف ایک طرف جاوید احمد سے جدائی کا باعث بنا تو دوسری طرف ’غامدیہ‘ کا واقعہ رجم جاوید احمد کو ’غامدی‘ کے لقب سے آشنا کر گیا۔ یہ سارا قصہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد کا ہے اور اب سقوطِ کابل کے بعد کا دور جاوید احمد غامدی کے خصوصی عروج کا دور ہے،کیونکہ اس وقت وہ بر سراقتدار جرنیل تو کجا امریکہ بہادر کی نمک حلالی بھی فرما رہے ہیں۔ علمی میدان میں ان کا بڑا زعم’عربی دانی اور قرآن فہمی‘ کا ہے جس کو قبولیت ِعام دینے کے لیے اُنہوں نے مولانا امین احسن اصلاحی کو ’مولانا‘ کی بجائے ’امام‘ کے لقب سے نوازا ہے۔اگرچہ غامدی صاحب اپنے حلقہ میں خود بھی ’امامت‘ کے درجہ سے قریب ترہونے کے وہم میں مبتلا ہیں ، اسی بنا پر اکثر تبصرے اور اختلافی مضامین خواہ وہ خود لکھیں یا لکھوائیں ،ان کے حاشیہ نشینوں کے نام سے شائع ہوتے ہیں جس میں وہ غامدی صاحب کو ’اُستاذِ محترم‘ ہی لکھتے ہیں۔ غامدی صاحب کی اس حکمت ِعملی کا فائدہ یہ ہے کہ اگر کل کلاں کسی فکری تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو تو آسانی رہے۔ بہر صورت یہ ان کا ہر دم بدلتا فکر ہے جسے ان کے اپنے حلقہ میں جاوید احمد غامدی صاحب کا فکری ارتقا باور کرایا جاتا ہے۔ جناب محمد رفیق چودھری نے اگرچہ عرصہ سے جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے الحادی فکر کا تنقیدی جائزہ چھوڑ رکھا ہے تا ہم کسی جذبہ محرکہ نے ان کے قلم کو مہمیز دی ہے اور اُنہوں نے جاوید احمد غامدی اور ان کے نام نہاد امام امین احسن اصلاحی کی عربی دانی اور قرآن فہمی کے ’مشتے از خروارے‘ چند نمونے سپردِ قلم کیے ہیں۔ ہم اُمید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے ’نادر افکار‘ کا بھی گاہے بگاہے اسی طرح جائزہ لیتے رہیں گے جس طرح ایک عرصہ قبل ان کے جذبہ ایمانی نے ایک جزوی ’مسئلہ رجم‘ پر اُنہیں جاوید احمد سے داغِ جدائی دیاتھا۔ زیر نظر مقالہ سے قبل ’سقوط ِڈھاکہ سے سقوطِ کابل‘ تک بننے والی شخصیت کایہ تاریخی حلیہ پیش خدمت رہے۔(محدث) جناب جاوید احمد غامدی اُس ’حلقہ فکر ِفراہی‘ کے ایک نمائندہ فرد ہیں جس نے دورِ حاضر میں تجدد اور انکارِ حدیث کی نئی طرح ڈالی ہے اور اپنے چند خود ساختہ اُصولوں کو تحقیق کے نام سے پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔ زیرنظر مضمون میں ہم ان کے ایک مخصوص اُصولِ ترجمہ و تفسیر کا علمی جائزہ لیں گے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ ان کے من گھڑت اُصولوں کی زد کہاں کہاں تک پہنچتی ہے اور کس طرح اس کے نتیجے میں ایک نئی شریعت ایجاد ہوجاتی ہے؟ چنانچہ قرآن فہمی کے حوالے سے وہ اپنے بعض اُصولوں کویوں بیان فرماتے ہیں :