کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 63
مسلمان بچوں کی اسلامی تعلیم تو گہوارے میں ہی شروع ہوجاتی ہے، جب ان کی مائیں اُنہیں بولنے کے لئے کلمہ طیبہ اور بسم اللہ سکھاتی ہیں۔ ویسے بھی انسانی ذہن کی تشکیل تین سال سے آٹھ سال کی عمر میں مکمل ہوتی ہے اور بعد ازاں اس کی نشوونما جاری رہتی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت ایک منافع بخش نوکری ہے، مگر ایسی بھی نہیں کہ اس کے لئے علامہ جاوید الغامدی قرآنِ حکیم اور اسلامیات کی تعلیم کو فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی اور ملائیت سے تعبیر کرنے لگیں۔ علامہ جاوید الغامدی اپنی لسانی اورعلمی صلاحیتوں کو محض سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ہر روز ٹی وی مباحثو ں میں نئی نئی اختراعات کرنے اور حاکموں کا قرب حاصل کرنے کے لئے اُس دین اورعلم کی جڑیں نہیں کاٹنی چاہئیں جس کی وجہ سے اُنہیں یہ عزت حاصل ہے۔ علامہ صاحب کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ علماے حق کبھی حکومتوں کی حمایت میں اس قدر سرگرم اور پُرجوش نہیں ہواکرتے۔
خواتین کے جھرمٹ میں بیٹھ کر ٹی وی چینلز کی چکاچوند روشنیوں میں اسلام کی یہ بخیہ گری کم از کم علامہ جاوید الغامدی کو زیب نہیں دیتی جو علامہ امین احسن اصلاحی کے فیض یافتہ اور سلسلۂ فراہی کی علمی روایت کے امین سمجھے جاتے ہیں۔ نام نہاد روشن خیال کا یہ دورزیادہ طویل نہیں ، علامہ صاحب اپنے آپ کوغلام محمد، ایوب خان اوربھٹو دور کے ان اصحابِ علم کی صف میں شامل نہ کریں جن کے نام تک آج کسی کو یادنہیں اور ان کے افکار و خیالات تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوچکے ہیں۔ (ادارتی شذرہ روزنامہ نوائے وقت: مؤرخہ۵/جون۲۰۰۶ء)