کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 61
قرآن میں ہے: ﴿فَلاَ تَعْضُلُوْھُنَّ أَنْ یَّنْکِحْنَ أَزْوَاجَھُنَّ﴾ ( البقرۃ:۲۳۲)
’’تم ان کو اپنی (سابقہ) بیویوں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔‘‘
کیونکہ علیحدگی طلاقِ رجعی کی صورت میں ہوئی ہے، اس لئے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے؟
٭ سوال: جو خطوط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بادشاہوں کو لکھے، کیاوہ آپ نے اپنے دست مبارک سے لکھے تھے؟ یا کسی کاتب سے لکھوائے تھے کیونکہ آپ تو اُمی تھے۔ روم کے بادشاہ ہرقل کے نام خط کی ایک فوٹو سٹیٹ ارسالِ خدمت ہے، ہمارے علاقے میں بعض لوگ اسے متبرک سمجھ کر تقسیم کررہے ہیں۔ اصل صورتِ حال کیاہے؟
جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اُمی تھے، لکھنا نہیں جانتے تھے اور جن روایات میں لکھنے کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے وہ محض حکم دینے والے کی حیثیت سے ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ مسئلہ ہذا پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : وأطلق کَتَبَ بمعنی أَمَرَ بالکتابۃ وھو کثیر کقولہ کتب إلی قیصر وکتب إلی کسرٰی والحقّ أن معنی قولہ فکتب أي أمر علیًّا أن یکتب (فتح الباری:۷/۵۰۴)
’’لکھنے کا حکم دینے کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کتابت کی نسبت کی گئی ہے اور حکم صادر فرمانے پریہ اطلاق بہت عام ہے جس طرح کہ کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر کی طرف چٹھی لکھی اور کسریٰ کی طرف چٹھی لکھی۔ حق بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول فکتب کامفہوم یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کولکھنے کا حکم دیا۔‘‘
پھر حضرت مسوررضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ تصریح بھی ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کاتب تھے۔ مزید برآں بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ خطوط و رسائل مبارک ہیں ، بالخصوص اس حیثیت سے بھی کہ ان میں موجود تعلیمات پرعمل کیا جائے اور جہاں تک تعلق ہے، ان کوچومنے اور چاٹنے کا سو یہ سلف صالحین کے عمل سے ثابت نہیں۔
[1] Rule of Suprintendence in management of Prisons in Pakistan. Chapter No.23,Rules No. to 579