کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 59
جواب: جس چیز کو آگ نے چھوا ہو، اس کو قبر میں استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ حدیث ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص نے مرض الموت میں فرمایا: الحدوا لي لحدا وانصبوا علی اللبن نصبًا کما صنع برسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم (صحیح مسلم :۷/۳۴)
’’میری قبر بغلی بنانا اور اس پر کچی اینٹیں لگانا جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کچی اینٹیں لگائی گئی تھیں۔‘‘
شارح صحیح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وقد نقلوا أن عدد لبناتہ صلی اللّٰه علیہ وسلم تسع
’’اہل علم نے نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی (قبر مبارک میں ) کچی اینٹوں کی تعداد نو تھی۔‘‘
اللبن کی تعریف اہل علم نے یوں بیان کی ہے: المضروب من الطین مربعا للبناء قبل الطبخ فإذا طبخ فھو الأجر
( اتحاف الکرام:ص۱۶۰) ’’مربع شکل میں پکنے سے پہلے عمارتی اینٹ کا نام ہے اور جب پک جائے تو وہ الأجر سے موسوم ہے۔‘‘
مختصر الخرقي میں ہے: ولایدخل القبرأجرا ولاخشبا ولا شیئا مسَّتْہ النار (مع المغني وبشرح الکبیر: ۲/۳۸۴)
’’قبر میں پکی اینٹ،لکڑی اور کوئی بھی ایسی چیزجو آگ سے تیار ہوئی ہو استعمال نہ کی جائے۔‘‘
فقیہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کچی اینٹ اور کانے کا استعمال مستحب ہے۔ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے لکڑی کو مکروہ کہا ہے۔ ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ سلف صالحین کچی اینٹ کو مستحب کہتے اور لکڑی کے استعمال کو مکروہ سمجھتے تھے۔ اس سے معلوم ہواکہ قبر کو بند کرنے کے لئے اصل کچی اینٹ ہے۔ اور عوام الناس میں آج جو سلیں لگانے کا رواج ہے، یہ نادرست ہے جس سے احتراز کرنا چاہئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حج و عمرہ بدل کرنا
٭ سوال: کچھ لوگ عمرہ و حج کرنے کے لئے جاتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حج و عمرہ ادا کرتے ہیں۔ کیا شریعت نے اس کی اجازت دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے کوئی ایسی بات صادر ہوئی یاپھر صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمۃ اللہ علیہ کا عمل ایسا ہوا؟
دوسری بات یہ ہے کہ جیسے حج بدل ادا کیا جاتاہے، ایسے عمرہ بدل بھی ادا ہوسکتا ہے؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حج یاعمرہ کرنا کتاب و سنت کی نصوص اور سلف صالحین
[1] اسلام کا فوجداری قانون :ج۲؍ص۳۷
[2] ایضاً: ج۲؍ص۳۳
[3] ایضاً
[4] ’پردہ‘ از سید ا بو الاعلیٰ مودودی،ص ۲۷۷،۲۷۸