کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 57
2. حدود قوانین کے اجرا کے لئے ان قاضی صاحبان کو متعین کیا جائے جو اسلامی شریعت کا بھرپور علم رکھتے ہوں۔مزید قانون سازی کی بجائے ان ماہر قاضی صاحبان کو اسلامی نظامِ عدل کے تصورات کے مطابق یہ سزائیں جاری کرنے کے اختیارات دیے جائیں۔ایسے ماہرین ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور وہ جدید قانون کی پیچیدگیوں اور طوالت کی بجائے سادہ انداز میں ہر ظالم کو اس کے ظلم کی سزا سنانے کی پوری صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یوں بھی اللہ نے قاضی کو کتاب وسنت کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند بنایا ہے، انسانوں کے خود ساختہ قوانین کے مطابق نہیں۔ 3. حدود قوانین میں مزید ترمیم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ، کیونکہ وہ نئی ترمیمات بھی انسانی ہوں گی، ان سے بھی بعض دیگر لوگوں کو اختلاف ہوگا، پھر ان میں بھی اصلاح کی گنجائش اور غلطی کا امکان باقی رہے گا، اس لئے صرف ایک ترمیم کرنا ہی کافی ہوگا کہ حدود قوانین کے ہر ابہام اور اختلاف کو کتاب وسنت کی رہنمائی میں حل کیا جائے گا۔یہ شق اس سے قبل قانون قصاص ودیت میں ۳۳۸/ ایف کے تحت موجود ہے اور سپریم کورٹ کے جسٹس افضل ظلہ کی سربراہی میں فل بنچ اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس خلیل الرحمن خاں کی سربراہی میں فل بنچ میں اسی نوعیت کے فیصلے کئے بھی جاچکے ہیں جن میں قانونی خلا کو کتاب وسنت سے براہِ راست رہنمائی کے ذریعے پورا کیا گیا۔ بنیادی سوال یہی ہے کہ اس قانون میں ترمیم کی نوعیت کیا ہونی چاہئے۔ جو لوگ اس کو خواتین حقوق کے خلاف تصور کرتے ہیں ، وہ ایسی تجاویز لاتے ہیں جس سے عملاً یہ قانون غیر مؤثر ہوجائے اور جو لوگ اس کو مؤثر کرنا چاہتے ہیں ، وہ اس کو جدید قانون کی آلائشوں سے نکال کر خالص اسلامی دائرۂ عمل میں لانے کی تجویز پیش کرتے ہیں جس اسلام میں انصاف ہی انصاف ہے اور مردوزن میں سے کسی پر بھی ظلم نہیں !! (حافظ حسن مدنی)
[1] إرشاد الفحول از علامہ شوکانی ،ص ۱۵۷ [2] عدالتی فیصلے از جناب جسٹس مولانا محمدتقی عثمانی،ج۱؍ص ۲۴،۲۵