کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 56
پیش نظر ویسی ترامیم آگے لائی جاتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ مذکورہ بالا ترامیم غیر اسلامی نہیں لیکن یہ پاکستان کی معاشرتی صورتحال کا صحیح حل بھی نہیں ہیں۔اس امر سے کسی کو انکار نہیں کہ پاکستان میں زنا کاری میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے، بڑے شہروں کے کئی علاقوں اور گلی چوراہوں میں کھلے عام بعض عورتیں رات گئے گاہکوں کی منتظر دکھائی دیتی ہیں ، ایک اسلامی معاشرے میں اس صورتحال کی ضرور روک تھام ہونی چاہئے لیکن کیا ان ترامیم سے زناکاری میں اضافہ ہوگا یا کمی ہوگی؟ ذیل میں ہم ان ترامیم کی نشاندہی کرتے ہیں جو مذکورہ مذاکرے میں شریک اہل علم کی مناسب آرا سے ہی اخذ کی گئی ہیں ، لیکن ان سے زنا کو عملاً روکنے میں مدد مل سکتی ہے : 1. پاکستان میں حدود اللہ کو پہلے سے چلے آنے والے انگریزی قانون کے ذریعے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی جس سے عملاً ناکامی کے علاوہ خصوصاً خواتین کے لئے زیادہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جبکہ حدود قوانین نہ صرف ۱۲ صدیاں اسلامی معاشروں میں نافذ رہے ہیں بلکہ آج بھی سعودی عرب میں نافذ العمل ہیں۔ ۱۲ جون کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ عرب امارات میں ایک غیرملکی مرد وعورت کو بغیر نکاح کے باہم جنسی تعلقات کے نتیجے میں شرعی سزا سنائی گئی، عورت کو کنواری ہونے کی وجہ سے ۱۰۰ کوڑے اور جلاوطنی اور مرد کو شادی شدہ ہونے کی وجہ سے سنگساری کی سزا۔ (روزنامہ ’نوائے وقت‘ : ص۳) اس سے پتہ چلتا ہے کہ اصل مسئلہ حدود قوانین کے قابل عمل ہونے کی بجائے طریقہ نفاذ کا ہے۔ اگر حدود قوانین کے کیس ہرشہر میں قائم شرعی عدالتوں میں براہِ راست درج کرائے جائیں اور اسلامی نظریۂ انصاف کے مطابق ایک دو روز میں ان کا فیصلہ کردیا جائے تو نہ صرف مرد وزن کو قید کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ فوری گواہیاں بھی مل سکتی ہیں جو موجودہ نظام میں کئی ماہ وسال گزرنے کے بعد عملاً ممکن نہیں رہتیں۔گویا اصل مسئلہ موجودہ نظامِ عدل کا ہے جہاں حدود قوانین کے علاوہ دیگر مقدمات میں بھی سالہا سال مظلوم کی داد رسی ممکن نہیں ہوتی۔ اسلامی حدود کو نافذ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے اینگلو سیکسن نظامِ عدل اور پولیس کے ظالمانہ نظام کی علتوں سے پاک کردیا جائے۔
[1] تفہیم القرآن از سید ابو الاعلیٰ مودودی،ج ۳؍ص ۳۲۷