کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 55
نتیجہ آخرکار حدود کی معطلی کی صورت میں نکلتا ہے۔ پہلے بھی قانونِ توہین رسالت کو معطل کرنے کے بجائے اس کے طریقہ کار میں ایسی تبدیلی کی گئی کہ عملاً یہ قانون ناقابل عمل ہوکر رہ گیا ، اب یہی چیز حدود قوانین کے ساتھ بھی کی جارہی ہے۔ ممکن ہے بعض لوگ اسے محض بد ظنی پر محمول کریں لیکن یہ دعویٰ حسب ِذیل مثال کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے:
مذکورہ بالا تین متفقہ ترامیم کو اگر تسلیم کرلیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی بھائی، باپ یا معاشرے کا کوئی اور فرد کسی عورت کو زنا میں ملوث دیکھے تو ایف آئی آر درج کرانے کے لئے پولیس کے پاس جانے سے قبل اوّل تو اسے چار عینی گواہوں کو آمادہ کرنا چاہئے یعنی روک تھام سے قبل خود ہی اپنے ہاتھوں اپنی عزت کی نیلامی کرلینی چاہئے، بصورتِ دیگرقذف کی خود بخود لاگو ہونے والی سزا کے لئے تیار ہوکر جانا چاہئے۔ اور آغاز کے اسی مرحلہ پر اگر وہ بفرضِ محال یہ لوازمات پورے بھی کرلیتا ہے تو تب بھی زنا کی مرتکب عورت کو پولیس کی گرفت سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ پولیس اس کو قید نہیں کرسکتی۔ دوسری طرف جس نکتہ کومنظور کرانے کی کوشش کی گئی، اگر وہ منظورہوجاتی تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ زنا بالجبر کی صورت میں نہ توچار گواہوں کی ضرورت ہوتی اور سزا ، زنا بالرضا کی سزا سے بھی سنگین تر اور قابل عمل ہوجاتی۔
مذکورہ بالا ترامیم کا نتیجہ واضح طورپر ملزمان کو رعایت کی صورت میں نکل رہا ہے اور ان پر روک ٹوک کو مشکل سے مشکل تر بنایا جارہا ہے۔پاکستان کے موجودہ حالات میں اس وقت زنا آرڈیننس کا استعمال زیادہ تر والدین کی رضامندی کے بغیر گھر سے فرار ہونے والی لڑکیوں پر زنا کے الزام کے سلسلے میں ہورہا ہے۔اس سلسلے میں معاشرتی اقدار وروایات کی توڑ پھوڑ اور عشق کی شادی کو عدالتی تحفظ ملنے کے بعد حدود قوانین کی متعلقہ شقوں کو غیر مؤثر کرنے کی جسارت کی جارہی ہے۔ عموماً خواتین ہی حمل ، عزت اُچھلنے یا معاشرتی انجام سے گھبرا کرزنا سے گریز کرتی ہیں لیکن اگر عورت کو ہر طرح کی روا اور ناروا رعایات بھی دے دی گئیں بلکہ الزا م ثابت ہونے کے باوجود قید وبند سے بھی استثنا مل گیا تو معاشرے میں زناکاری کس قدر عام ہوجائے گی، اس کا اندازہ ہر صاحب ِنظر بخوبی کرسکتا ہے۔
دراصل کسی بھی معاملہ کی اصلاح کے لئے بیسیوں ترامیم کی جاتی ہیں اورمطلوبہ نتائج کے
[1] صحیح بخاری،ترجمہ از علامہ وحید الزماں،حدیث:۷۳۹