کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 54
کار میزبانوں کی ذہانت ہی کام آئی اور اُنہوں نے پروگرام کو اپنے مطلوبہ نتائج تک لے جانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
اس پروگرام میں دونوں طرف کے اہل علم کے مابین متعدد اُمورپر اتفاقِ رائے بھی سامنے آیا، مثال کے طورپر قانون کے اجرا کے طریقہ میں اصلاح، پولیس کا ناروا کردار اور جج حضرات کی کتاب وسنت سے لاعلمی، مردو زَن کے لئے سزائے قیدکا خاتمہ لیکن میزبانوں / منتظمین نے ان اصل نکات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے سوالات کی ساخت اور نشاندہی کے ذریعے محض انہی نکات کو حتمی کرنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھی جس سے بحث کو مخصوص رخ دیا جاسکے۔
یہ پروگرام نہ صرف انتہائی غور وخوض سے ترتیب دیا گیا بلکہ امکانی رجحانات کے پیش نظر متعلقہ آیات واحادیث کی سلائیڈز بھی پہلے سے بنا رکھی گئی تھیں۔ آخر تین متفقہ نکات پر پروگرام کا خاتمہ کیا گیا، ان نکات کے تذکرے کے بعد ان کا ایک جائزہ پیش خدمت ہے :
1. زنا کی ایف آئی آر اسی وقت کاٹی جائے جب زنا کے چار عینی گواہ موجود ہوں۔
2. خواتین کے لئے قید کی سزا کا خاتمہ کیا جائے۔
3. زنا کا الزام غلط ثابت ہونے کی صورت میں عام قانونی طریقہ کار کے برعکس از خود قذف کی کاروائی کی جائے۔
’’زنا بالجبر کو ’حرابہ‘ کے تحت لاتے ہوئے، اس کے لئے محض دو گواہ اور سنگین تر سزا تجویز کی جائے۔‘‘ اس آخری نکتہ پر اتفاق کرانے کی کوششیں تو ہوئیں لیکن عملاً ایسا نہ ہوسکا۔
اسلام کا نظریۂ جرم وسزا یہ ہے کہ چند سنگین سزاؤں کے نفاذ کے ذریعے پورے معاشرے میں قانون کی مخالفت کرنے والے عناصر کے خلاف ایک آڑ(Deterrent) قائم کردیا جائے تاکہ اس کے خوف سے لوگ جرم کرنے سے باز رہیں۔ اسلام نہ تو یہ چاہتا ہے کہ شبہات پر سنگین سزائیں دی جائیں اور نہ ان سزاؤں کو عملاً معطل کرنے کا رجحان رکھتا ہے۔ لیکن مذکورہ بالا متفقہ ترامیم کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ان کے نتیجے میں اگر گذشتہ ۲۷ برسوں میں کسی ایک شخص پر حد کی سزا عائد نہیں ہوسکی تو ان ترامیم کے بعد آئندہ ۵۰ برسوں میں بھی اس کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ مذکورہ بالا ترامیم بظاہر تو درست نظر آتی ہیں لیکن ان کا مقصود ومدعا اور
[1] عدالتی فیصلے ازجناب جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی ج۱،ص ۴۴
[2] سنن ابی داود،ترجمہ از علامہ وحید الزماں،حدیث نمبر:۱۰۳۳،اشاعت ۱۹۸۳ء
[3] صحیح بخاری،باب النفس بالنفس