کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 53
ہے، اور آخر کار سب کو روزِ قیامت اپنی اسلامیت کا ربّ ذوالجلال کے سامنے جواب دینا ہے !!
…… ۲ ……
اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰه حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ
’’کیا یہ لوگ جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں ، ایمان لانے والوں کی نظر میں
اللہ عزوجل سے بڑھ کر کون اچھا قانون دے سکتا ہے؟‘‘ (سورۃ المائدۃ: ۵۰)
حدود قوانین اور بعض ’متفقہ‘ ترامیم ؟
پاکستان کے ایک بڑے ابلاغی ادارہ نے حدود قوانین کو لگاتار موضوعِ بحث بنا کراسے ایک بار پھر عوام کے ذہنوں میں تازہ کردیا ہے۔ اس بحث سے عوام کے ذہنوں میں جہاں اس قانون کے بارے میں کئی ایک اعتراضات او رمغالَطوں نے جنم لیا، وہاں والہانہ انداز میں بپا کی گئی یہ مہم بھی اس ابلاغی ادارے کے بارے میں کئی ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرگئی۔ اتوار ۱۰/جون کو دو گھنٹے کے طویل پروگرام پر اس مہم کونقطہ عروج پر پہنچایا گیااور اس میں چھ افراد اور سامعین کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا۔ دو علما حدود قوانین کے حامی (مولانا عبدالمالک اور مفتی منیب الرحمن)، دو دانشور مخالفت میں (جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر طفیل ہاشمی) اور دو میزبان (حامد میر اور افتخار چودھری)۔ بہت سے لوگوں نے اس پروگرام میں ناظرین کی حیثیت سے شرکت کی۔ گویا واقعتا یہ ایک بھرپور میڈیا ٹرائل تھا جس میں دوطرفہ دلائل اور ان کا جائزہ پیش کیا جاتا رہا۔
ایک مخصوص گروپ کے ذرائع ابلاغ پراوّل روز سے یہ مہم جس ہوشیاری کے ساتھ چلائی جارہی ہے، یہ پروگرام بھی اسی ہاتھ کی صفائی کا شاہکار تھا۔ درمیان میں بعض مراحل پر مظلوم خواتین کی ویڈیوز کے ذریعے جذباتی فضا پیدا کرنے یا این جی اوز کی خواتین کے واک آؤٹ کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن ان کا خاطرخواہ اثر نہ ہوا۔ بعض سوالات پر اثر انداز ہونے کے لئے بعض اہل علم کی پہلے سے ریکارڈ شدہ ویڈیوزبھی پردۂ سکرین پر پیش کی گئیں لیکن مباحثہ میں شریک پختہ فکر علما ثابت قدمی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔آخر
[1] رپورٹ خواتین حقوق کمیشن،اگست ۱۹۹۷ء،ص ۷۴