کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 51
جہاں تک شرعی حد کا تعلق ہے تو یہ مسئلہ امتیاز کا نہیں بلکہ اللہ کے طے کردہ نصابِ شہادت کا ہے جو قرآن میں مذکور٭ ہے۔ اگر اللہ نے یہ حق عورتوں کو نہیں دیا تو ان مردوں کو بھی نہیں دیا جن کی تعداد چار سے کم ہو۔ شریعت کے دیگر مسائل میں دو گواہوں سے وقوعہ ثابت ہوجاتا ہے لیکن مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ پر زناکی چار گواہیاں پوری نہ ہونے پر، باقی تین گواہوں پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بہتان کی سزا٭ جاری کی۔گویا نصابِ شہادت کا یہ تقاضا مردوں کے ساتھ بھی امتیازی ہے۔ زنا کی واحد سزا (جو سنگین ترین بھی ہے) کا اتنا کڑا نصاب کیوں ہے؟اس کی حکمتیں بے شمارہیں ، جو ایک الگ موضوع ہے۔ البتہ عورتوں کو اس کی گواہیوں سے دور رکھنے کی حکمت یہ بھی ہے کہ دورانِ تفتیش وقوعہ کی عملی تفصیلات پر وکیل کی کڑی جرح سے غیر مردوں کے درمیان نسوانی شرم وحیا متاثر ہوسکتی ہے اورشرم وحیا کی وجہ سے مجرم کو قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کا موقع مل سکتا ہے۔
یوں بھی یہ اعتراض کرنے والے لوگ اس امتیاز کے ذریعے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اُنہیں زنا کی سنگین شرعی سزا دلوانے سے دلچسپی ہے کیونکہ شرعی نصاب کا تقاضا عام سزامیں تو ہے ہی نہیں ، جبکہ یہی خواتین ہمیشہ سے شرعی حدود کو ظالمانہ اور وحشیانہ قرار دیتی آئی ہیں ، چنانچہ یہ الزامات محض اعتراض برائے اعتراض ہیں !!
بعض خود ساختہ اسلامی دانشورں نے حدود قوانین کو زنابالجبر کا لائسنس بھی قرار دیا ہے کہ جبر کے ثبوت کے لئے بھی عورت کو چار گواہ پیش کرنا ہوں گے، جبکہ شریعت کا ۴ گواہوں کا یہ تقاضا شرعی سزا کو لاگو کرنے پر ہی ہے، جبر کے ثبوت کے لئے نہیں ، جبر کا علم تو محض عورت کے بیان یا قرائن٭ کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے۔
حدود قوانین پر تین نقطہ نظر
پاکستان میں اس وقت حدود قوانین کے بارے میں دو تین مختلف نظریات پائے جاتے
___________________
٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ پر زنا کا الزام لگایا گیااور تین شخصوں نے گواہی دی: ابوبکرہ، نافع اور شبل بن معبد مگر چوتھے شخص زیاد بن ابیہ نے وقوعہ کی تفصیلات سے لاعلمی کا اظہار کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تینوں پر حد قذف جاری کی۔(بخاری تعلیقاً قبل حدیث ۲۶۴۸، سنن بیہقی: ۸/۲۳۴، ابن شیبہ: ۲۸۸۲۴) المغنی:۱۴/۱۲۵
٭ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ایک شخص نے بتایا کہ ایک مہمان نے اس کی بہن سے زنا بالجبر کیا ہے حالانکہ وہ اس پر راضی نہیں تھی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مہمان سے تفتیش کی جس کے نتیجے میں مہمان نے اعتراف کرلیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے سو کوڑے لگائے اور فدک کی طرف جلاوطن کردیا اور عورت پر جبر کی وجہ سے نہ تو اس پر حد لگائی اور نہ اسے جلاوطن کیا، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے اس عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا۔ (مصنف عبد الرزاق : ۱۲۷۹۶)
ابو موسیٰ اشعریؒ نے یمن میں ایک غیرشادی شدہ عورت کو حاملہ پایا تو رشتہ داروں کے ہمراہ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لئے آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے اقربا سے اس کے کردار کے بارے میں پوچھ گچھ کی اور اس کے بارے میں اچھے تاثرات ملنے پر عورت کو مجبور قرار دیا۔ پھر قوم کو اس کا دھیان رکھنے کی تلقین کی اور تحائف وہدایا دے کر واپس بھیج دیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۲۸۵۰۰)