کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 50
یا کسی شیخ الاسلام کا بہترین فہم بھی ما أنزل اللّٰه نہیں ہوتے۔اس لئے کتاب وسنت کو ہی ان کی اصل صورت میں نافذ کیا جائے، تب ہی اسلام کا کاملاً نفاذ ہوسکتا ہے۔
جدید مغربی قانون اور اسلامی شریعت میں یہ ایک بنیادی فرق ہے کہ انسانی قوانین میں مسئلہ پیش آنے سے قبل ’کوڈی فی کیشن ‘ کرکے ججوں کو اس کا پابند بنایا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام میں قرآن وسنت کو ہی نافذ کرکے مسئلہ پیش آنے پر شرعی اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والا قاضی اپنا فیصلہ صادر کرتا ہے۔ قاضی کواپنے جیسے دوسرے انسانوں کے فہم وتعبیر کا پابند نہیں کیا جاتابلکہ وہ صرف اللہ کی وحی کا پابندہوتا ہے۔ تاریخ میں اسلامی شریعت کے نفاذ کا طریقہ یہی رہا ہے۔
یہ ایک مثالی جواب تو ہے لیکن چونکہ پاکستان انگریزی نظامِ عدل کو اپنائے ہوئے ہے، اس لئے حدود قوانین میں مزید ترمیم کی بجائے محض ایک شق کا اضافہ کردیا جائے کہ جہاں کہیں ابہام یا اختلاف ہو تو اس کا فیصلہ کتاب وسنت کی روشنی میں کیا جائے گا، اس سے اس قانون میں اصلاح اور ترمیم کا دروازہ کھولنے کی بجائے صرف قرآن وسنت کو قانون پر نگران کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ یہ موقف کوئی نیا نہیں بلکہ قانون قصاص ودیت کے نفاذ کے سلسلے میں ایک فیصلہ کرتے ہوئے ۱۹۹۱ء میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے جسٹس افضل ظلہ کی سربراہی میں اور ایک دوسرے کیس میں لاہور ہائیکورٹ کا فل بنچ صلح کے بعد تعزیری سزا پر بھی ایسا ہی فیصلہ صادر کرچکا ہے۔ قانونِ قصاص ودیت کی دفعہ ۳۳۸ / ایف میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔
کیا حدود قوانین امتیازی ہیں ؟
حدود قوانین میں تمام سزائیں عورتوں کے علاوہ جرم کرنے والے مردوں پر بھی مساوی طورپر لاگو ہیں لیکن عورتوں کی نصف گواہی کی بنا پر حدود قوانین کے امتیازی قانون ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے جومحض مغالطہ آرائی ہے۔
حدود قوانین میں زنا کے ثبوت کے دو طریقے ہیں اور ہر دو کی علیحدہ علیحدہ سزا ذکر کی گئی ہے۔ اگر شہادت کے شرعی تقاضے پورے ہوجائیں تو زنا کی شرعی سزا(حد)، وگرنہ شہادت کے عمومی تقاضوں کی رو سے عام سزا (تعزیر) مثلاً ۱۰ سال قید اور ۳۰ کوڑے رکھی گئی ہے۔
جہاں تک عام سزا کا تعلق ہے تو پاکستانی قانون میں عورت کی شہادت بھی معتبر ہے۔
[1] اسلام کا فوجداری قانون از عبدالقادر عودہ،مترجم پروفیسر ساجد الرحمن صدیقی،ج۱؍ص ۷۱۲،طبع مئی ۱۹۹۱ء