کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 49
نہیں۔ سایہ درخت نہیں کہلاتا لیکن درخت کا غیر بھی نہیں۔ ایسے ہی قرآن وسنت کا فہم خود قرآن وسنت بھی نہیں ہوتے لیکن اس کے غیر بھی نہیں۔ دونوں میں وہی تعلق ہوتا ہے جولفظ کا اپنے مفہوم کے ساتھ!!
اس مغالطہ آمیز سوال کا اب یہ نتیجہ نکالنا کہ ان میں ترمیم واصلاح کا دروازہ کھولا جائے، اوّل توموجودہ حکومت کی امریکہ نوازی اور مغربی فکر وفلسفہ سے مرعوبیت کے بعد اس سے کسی بہتر اصلاح کی اُمید کرنا ہی عبث ہے۔ مزید برآں اصل کوتاہی اور اصلاح کی ضرورت ان قوانین کی بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہے۔ سرحد اسمبلی ۲۰۰۳ء میں اور اسلامی نظریاتی کونسل کئی ایک رپورٹوں (مثلاً ۲۰۰۲ء) میں ان حدودقوانین کو عین اسلامی قرار دے چکی ہے۔ پھر محض غلطی کے امکان اور اصلاح کی گنجائش کی بنا پر اگر ان کو تبدیل کیا بھی جاتا ہے تو وہی اساسی سوال پھر سے پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ترمیم شدہ قوانین خدائی ہوں گے، ان میں غلطی یا اصلاح کا امکان کیونکر معدوم ہوگا؟ آج بعض اہل فکر کو اس مسودہ سے اختلاف ہے، کل بعض دوسروں کو اس سے اختلاف ہوگا۔ اس لئے میڈیا پر اُٹھائے جانے والے اس سوال کا اصل جواب تو یہی ہے کہ حدود قوانین خدائی نہیں ، الٰہی قوانین صرف قرآن وسنت کے اپنے الفاظ ہیں ، اگر ہم خالصتاً الٰہی قانون کو نافذ کرنے میں سنجیدہ ہیں توجس طرح ہم انسانی حقوق کے مغرب سے درآمدہ دستاویز کو بغیر کسی قانون سازی کے قابل عمل سمجھتے ہیں ، اسی طرح اسلام بھی ۱۲ صدیاں خلافت ِاسلامیہ میں قرآن وسنت کے اصل الفاظ میں ہی نافذرہا ہے، کیونکہ کوئی انسان اللہ کے اپنے الفاظ (قرآن) سے بہتر الفاظ لانہیں سکتا۔ آج بھی حدود اللہ کا کامل نفاذ اصل قرآن وسنت کے نفاذ سے ہی ہوسکتا ہے جیسا کہ سعودی عرب میں حدود اللہ کو یوں ہی نافذ کیا گیا ہے۔قرآن نے ہر قاضی کو ما أنزَل اللّٰه (اللہ کے نازل کردہ ) کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند٭ بنایا ہے۔ باقی تمام چیزیں اورانسانوں کے فہم سے تیارکردہ قوانین
___________________
٭ قرآن میں ہے: ﴿وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ أَنْزَلَ اللّٰه فَأُوْلـٰئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾ (المائدۃ: ۴۴)
’’جو اللہ کے نازل کردہ کے ساتھ فیصلہ نہ کرے، وہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
اس سے اگلی آیات میں ایسے لوگوں کو فاسق اور ظالم قراردیاگیا ہے۔ (المائدۃ: ۴۵ و ۴۷)