کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 47
حدود قوانین کی اہمیت اس گرما گرم بحث میں آج تک حدود قوانین کی اصل اہمیت کو اجاگرنہیں کیا گیا۔ پاکستان میں پہلی بار اس قانون کی رو سے زنا کو جرم قرار دیا گیا تھا۔ سابقہ قانون ’تعزیراتِ پاکستان‘ کی دفعہ ۴۹۷ اور حدود قوانین کی دفعہ ۴ کا تقابلی مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ حدود قوانین سے پہلے پاکستان میں کسی غیر شادی شدہ عورت مثلاً کنواری، بیوہ یا مطلقہ سے زنا قانوناً جرم ہی نہیں تھا۔ انگریز کے دور سے چلے آنے والے سابقہ قانون میں زنا کے جرم ہونے کی بجائے محض اسے شوہر کے حق میں مداخلت قرار دیتے ہوئے صرف اس زنا کو جرم باور کیا جاتا تھا جہاں بیوی شوہر کی رضامندی کے بغیر غیر مرد سے جنسی تعلقات قائم کرے۔ اس لحاظ سے اُس وقت صرف شوہر ہی زنا کا مقدمہ درج کراسکتا تھا اور وہ بھی اسی وقت جب اس سے بیوی نے اجازت نہ لی ہو۔ جبکہ حدود قوانین کی رو سے زنا ایک ناقابل راضی نامہ اور ناقابل ضمانت جرم ہے جس کا اطلاق بغیر نکاح کے ہونیوالے ہر جنسی تعلق پر کیا جاسکتا ہے۔ زنا کاری اسلام کی نظر میں اس قدر سنگین جرم ہے کہ فرمانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق :’’روئے کائنات میں اس فعل بد پر اللہ عزوجل سے زیادہ کسی کو غیرت نہیں آتی۔‘‘(بخاری: ۱۰۴۴) اور’’اسی غیرت کی وجہ سے اللہ نے حرام کاریوں کی سنگین سزا مقرر کر رکھی ہے۔‘‘ (بخاری: ۷۴۱۶) حدود قوانین کا یہ اکیلا اعزاز ہی اتنا اہم ہے کہ مغرب سے مرعوب لوگ اس کو برداشت نہیں کرسکتے کیونکہ مغرب میں زنا بالرضا بذاتِ خود جرم ہی نہیں ، محض زنا بالجبر کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ مغرب میں نکاح کی حیثیت وقتی رضامندی کودی گئی ہے جو شادی سے قبل حاصل ہو تب بھی جنسی مواصلت میں کوئی مضائقہ نہیں اور نکاح کے بعد بیوی وقتی طورپر راضی نہ ہو تو یہ ’ازدواجی زنا بالجبر‘ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میڈیا ٹرائل میں اس سوال کو بھی بڑے شدومد سے اُٹھایا گیا کہ حدود قوانین میں زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں کوئی فرق کیوں نہیں ؟ یہ سوال خود مغربی تہذیب سے مرعوبیت اور اباحیت پسند انہ طرزِ فکر کی نشاندہی کرتاہے۔ کیونکہ اسلام میں زنا کی سنگینی کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ، البتہ عورت سے جبر بھی ایک اضافی جرم ہے، حالات وقرائن سے ثبوت ملنے پر نہ صرف متاثرہ عورت کو بری قرار دیا جائے