کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 46
ایکٹ میں ایسی ہی ترامیم تجویز کی گئی ہیں ، اسکے بعد عملاً وطن عزیز میں محض حدود آرڈیننس ہی واحد اسلامی قانون کے طورپر باقی رہ جاتاہے جس سے ملک کا رہا سہا اسلامی تشخص برقرار ہے۔ حدود قوانین کی منسوخی کا مطالبہ اس کے یومِ نفاذ سے ہی وہ لوگ کر رہے ہیں جن کی نظرمیں اس ملک کا اسلامی ریاست ہونا ہی ایک امتیازی اور اضافی مسئلہ ہے۔ مغربی افکار کے پروردہ ان حلقوں کو مطمئن کرنے کے لئے ہر حکومت خواتین کمیشن٭ قائم کرتی رہی۔ اِن دنوں بھی وفاقی وزیر قانون جناب وصی ظفر کے بقول حدود قوانین کے بارے میں تجاویز اورمسودۂ قانون حکومت کو پیش کیا جاچکا ہے اوراس پر عنقریب بحث ہونے والی ہے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس کے لئے پاکستان کے ایک اہم ابلاغی ادارے نے اپنے تمام اُردو/ انگریزی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر حدودقوانین کے خلاف ’میڈیا٭ ٹرائل‘ شروع کررکھا ہے۔ ملک کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کرکے اس امرکو اس قدر اہمیت دی گئی ہے گویا یہ وطن عزیز کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ دوسری طرف اسی ملک میں عائلی قوانین ۱۹۶۱ء اور قتل غیرت کے نام سے حالیہ قانون سازی وہ اہم اقدامات ہیں جن میں اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کیا گیا ہے لیکن ان کو مقدس گائے بناکر دینی وعوامی حلقوں کے احتجاج کو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی، مفرور لڑکیوں کے نکاح پر متعدد فاضل جج صاحبان قانون سازی کی سفارش کرچکے ہیں ، لیکن یہاں بھی اصلاحِ احوال کی بجائے معاشرتی اقدار کی شکست وریخت پر اسمبلیوں میں گھمبیر خاموشی طاری ہے۔ ___________________ ٭ مثلاً ’عورت کی حیثیت کے بارے میں کمیشن‘ چیئرپرسن : بیگم زری سرفراز ۱۹۸۵ء + ’دی کمیشن آف انکوائری فار ویمن‘ چیئرمین : جسٹس سعدسعودجان ۱۹۹۴ء ، بعد میں ’خواتین حقوق کمیشن‘ جسٹس ناصر اسلم زاہد ۱۹۹۶ء + ’نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن‘، چیئرپرسن جسٹس (ر) واجدہ رضوی ۲۰۰۰ء وغیرہ ٭ روزنامہ جنگ، انقلاب اور دی نیوز اخبارات میں قد آدم اشتہارات کے علاوہ اوّل وآخرصفحہ کے نچلے کالم میں روزانہ ۸/ ۱۰ بیانات، جیو چینل پر روزانہ ۵ سے زائد بار حدود پرپروگرام۔ ’ذراسوچئے‘ کے نام سے مستقل سلسلۂ بحث جس کے بڑے بڑے بورڈ چوراہوں پر، حدود آرڈیننس کے لئے مستقل ویب سائٹ۔ اس پر اکتفا نہیں بلکہ دیگر پروگراموں جوابدہ، آمنے سامنے، الف، کیپٹل ٹاک وغیرہ میں بھی حدود قوانین کو زیر بحث لایا گیا۔ اس لئے اس مہم کو بعض لوگوں نے میڈیا ٹرائل اور بعض نے ’ہفتہ پولیو‘ یا ’ہفتہ ٹریفک‘ سے تشبیہ دی ہے۔
[1] ’پاکستان میں قوانین کو اسلامیانے کا عمل‘ از ڈاکٹر محمود احمد غازی،ص ۲۶،شریعہ اکیڈمی، اسلام آباد ٭ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان نے روزنامہ ’انصاف‘ لاہور (مؤرخہ ۲۸ مئی ۲۰۰۴ء کو) انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ طویل غوروخوض کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے اس قانون کا اوّلین مسودہ تیار کیا تھا اور پھر قاعدے کے عین مطابق وزارتِ قانون پاکستان نے اس کا حتمی مسودہ مرتب کیا تھا۔