کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 122
سفارش نمبر۴ : ’’قذف کی سزا صرف مردوں کے لئے مخصوص کی گئی ہے۔‘‘
اور تمام سفارشات کا مرکزی خیال کہ زنا بالجبر اور زنا بالرضا کو علیحدہ علیحدہ رکھا جائے، یہ تقسیم بھی محض عورت کی رضامندی یا عدمِ رضامندی کی بنا پر ہے، وگرنہ اسلام میں زنا کی سزا کو اس تقسیم کی بجائے کنوارے اور شادی شدہ مرد وزن میں تقسیم کیا گیا ہے، جس کا ان مکمل دو صفحات میں کہیں تذکرہ ہی نہیں ہے ، کیونکہ اسکے مرتبین میں حدرجم کے منکرین بھی شامل ہیں۔
٭ دونوں صفحات کے نیچے نمایاں انداز میں حکومت کو دوبار جھنجوڑا گیا ہے :
’’پارلیمنٹ کب سوچے گی؟‘‘
اس سے واضح پتہ چلتا ہے کہ جنگ اور جیو کی اس مشترکہ مہم کا واحد مقصد حدود قوانین میں تبدیلی کرانا ہے، نہ کہ وہ معصوم خواہش جو لگاتار ان پروگراموں کے آغاز میں دہرائی جاتی رہی:
’’جن ایشوز نے معاشرے کو تقسیم کردیا ہے، ہم ان میں اتفاقِ رائے پیدا کر نا چاہتے ہیں۔‘‘
٭ ’ذرا سوچئے‘ کا ’لوگو‘ بھی قابل اعتراض ہے۔ جس میں دو ترازو کے دو پلڑوں کو غیر متوازن دکھانے کے علاوہ ترازو میں رسّی کی بجائے خاردار زنجیراستعمال کی گئی ہے۔ جیو پر آنے والے اشتہارات میں بھی عورتوں کے پاؤں میں زنجیریں دکھا کر اُنہیں مظلوم ثابت کیا جاتا رہا ہے۔ غور کا مقام ہے کہ یہ زنجیریں کس کو قرار دیا جارہا ہے۔کہیں اس کے ذریعے اسلام کے قوانین کو نعوذ باللہ ظالمانہ اور وحشیانہ قرار دینے کی جسارت تونہیں کی جارہی؟
مزید سوال یہ ہے کہ ’جیو‘ نے حدود قوانین کو انسانی کہہ کراس پر بحث کا آغاز کیا تھا۔ اب کیا جنگ اور دی نیوز کے زیر بحث صفحات پردرج سفارشات خدا کی طرف سے نازل شدہ ہیں ؟؟ اگر سابقہ قانون پر چند مغرب نواز حلقوں کو اعتراض ہے تو مذکورہ ترامیم تومعاشرے کی پوری ساخت کو تبدیل کرنے کے لئے ہیں اور سرتاپا قابل اعتراض ہیں۔
٭ حدود قوانین کے خلاف آغاز میں درج یہ پروپیگنڈا بھی خلافِ حقیقت ہے کہ
’’حدود آرڈیننس پر ہر مکتبہ فکر کی طرف سے تنقید ہوتی رہی۔‘‘
’’زنا آرڈیننس اس کا ایک انتہائی متنازع حصہ ہے جس کا کھلم کھلا غلط استعمال ہوا، اس قانون کی بہت مذمت کی گئی، بیشتر علما اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ زنا آرڈیننس میں قرآن وسنت کی