کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 121
جارہا ہے مثلاً یہ دعویٰ کہ ’’زنا بالجبر کے بارے میں ۴ گواہوں کا ملنا ممکن نہیں۔اگر چار گواہ ہوں گے تو وہ جبری زنا کو روکیں گے، نہ کہ اس کی گواہی دیں گے۔‘‘ محض خام خیالی ہے۔ اپنے اس زعم باطل کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ’’علم اور تجربے سے معلوم ہوچکا ہے کہ زنا کو اس طرح ثابت نہیں کیا جاسکتا، ہم اسلام کے نام پر کسی ایسے قانون کے استعمال کی اجازت نہیں دے سکتے جس سے مکروہ جرائم میں ملوث مجرم انصاف کے کٹہرے میں نہ لائے جاسکیں۔‘‘ (مسئلہ نمبر ۸) اس عبارت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مرتبین کا خیال ہے کہ چار گواہ مل نہیں سکتے، یہی وجہ ہے کہ زنا بالرضا کی سزا کو معطل کرنے کے لئے اُنہوں نے مقدمہ درج کرانے سے قبل ہی چار تحریری شہاد توں کی شرط عائد کردی ہے۔ حالانکہ اوّل تو یہ خیال بھی درست نہیں کیونکہ خود دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک یہودی کو رجم کرنے کے واقعہ میں چار گواہ میسر آئے تھے۔ (سنن ابو داود: ۳۸۶۲) جہاں تک یہ رائے ہے کہ زنا بالجبر میں نہیں مل سکتے تو یہ بھی محض خام خیالی ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ مجبور عورت کی چیخ وپکار سن کر یا اس کو تلاش کرتے ہوئے گواہ اس مرحلہ پر پہنچے ہوں جب فعل زنا واقع ہوچکا ہو، یا بعض اوقات کچھ وڈیرے یا باغی لوگ کھلم کھلا جبری زنا کا ارتکاب کرتے ہیں ، اور موقع پر موجود لوگ اپنی کمزوری یا گولی کے خوف کے تحت ان کو روکنے پر قادر نہیں ہوتے۔ بعض قبائلی جرگے بھی ایسے غیر اسلامی فیصلے کردیتے ہیں اور بعض اوقات انتقام کے لئے کسی خاندان کو رسوا کرنے کے لئے بھی یہ مکروہ فعل انجام دیا جاتا ہے۔گھروں میں آنے والے بعض ڈاکو بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ اس لئے یہ فقط مرتبین کی ذہنی اُلجھن ہے، جس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں اور اس کے ذریعے قرآن کے مقدس قوانین کو ناقابل عمل قرار دینے کی جسارت کی جارہی ہے۔ ٭ یہ ترامیم عورتوں کی بے جا حمایت کے نام پر مرتب کی گئی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک صنف کے خلاف امتیازی قوانین کے نام سے دوسری صنف کے خلاف امتیازی قوانین کی راہ ہموار کی جارہی ہے … مثلاً سفارش نمبر ۳ :’’عورتوں کو جیل نہ بھیجا جائے۔‘‘