کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 120
ماحول کو پیش نظررکھا جائے۔ (مقصود یہ ہے کہ اگر معاشرے میں فحاشی یا بے حیائی زیادہ ہو تو اس صورت میں اس سزا کو معطل کردیا جائے جبکہ قانون کے نفاذ کا مقصد ہی جرم کا خاتمہ ہوتا ہے) مندرجہ بالا نکات میں واضح طورپر زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں فرق کیا گیا ہے۔ایسا تو ممکن نہیں کہ اسلامی معاشرے میں زنا جیسی سنگین برائی کو برداشت کرلیا جائے، لیکن اس کی سزا کو ناقابل عمل بنا کر عملاً زنا کی سزا کو معطل کیا جاسکتاہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا سفارشات میں زنا بالرضا کی سزا کو مشکل سے مشکل تر اور دوسرے کی سزا کو آسان تر اور قابل عمل بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جبکہ خود انہی سفارشات میں اس امر کا اعتراف بھی موجود ہے کہ پہلے شریعت ِاسلامیہ میں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا تھا ، چنانچہ سفارش نمبر ۹ میں درج یہ الفاظ ملاحظہ ہوں : ’’ہم یہ اجتہاد بھی کرسکتے ہیں کہ بدکاری اور زنا بالجبردوالگ جرائم ہیں۔‘‘ چند قابل اعتراض اُمور ٭ روزنامہ ’جنگ‘ کے ان دوصفحات میں بہت سی باتیں خلافِ حقیقت اور قابل اعتراض بھی ہیں ، مثلاً ٭ صفحہ ۳ پر جملہ سفارشات کو علما کی متفقہ سفارشات قرار دیا گیا ہے جبکہ ۱۱ میں سے صرف اوّلین ۳ سفارشات کے بارے میں اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے اور وہ بھی جزوی حد تک مثلاً علما کا موقف یہ تھا کہ مرد وزَن ہر دو کو قید کی سزا دینا اسلام کی رو سے مناسب نہیں لیکن سفارش نمبر۳ میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ ’’زنا کے الزام میں ’عورتوں ‘ کو جیل نہیں بھیجا جائے گا۔‘‘ اس دعویٰ کے خلافِ حقیقت ہونے کا مرتبین کو بھی احساس ہے چنانچہ صفحہ ۴کے آغاز پر بڑی سرخی میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ مندرجہ ذیل سفارشات کے بارے میں اجتہاد ہونا چاہئے لیکن اس اعلان کے باوجود سفارشات کا نمبرشمار ۵ تا ۱۱ اسی امر کا آئینہ دار ہے کہ یہ متفقہ سفارشات کا ہی تسلسل ہے۔ ٭ سفارش نمبر۹ میں درج یہ جملہ مرتبین کی اُلجھی ذہنیت کی غمازی کرتا ہے : ’’اس طرح زنا اور بدکاری کو ایک ہی درجے میں رکھا گیا ہے۔‘‘ ٭ بعض باتیں محض مرتبین کی ذاتی ذہنی اُلجھنیں ہیں ، ان کے ذریعے مسئلہ کو بلاوجہ طول دیا