کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 119
زنا بالجبر کو علیحدہ جرائم تصور کیا جائے اور پہلے کے لئے قانونی پابندیاں اور پیچیدگیاں اس قدر سخت کردی جائیں کہ زنا بالرضا کی سزا دینا ہی ممکن نہ رہے، جبکہ زنا بالجبر کو ایک عام جرم بنا کر اس کی سزا کو قابل عمل بنانے کے اقدامات کئے جائیں۔ ان سفارشات کی شرعی حیثیت سے قطع نظر مذکورہ پس منظر میں ان کا ایک تقابلی مطالعہ پیش خدمت ہے، البتہ درج ذیل نکات کو بہتر طورپرسمجھنے کے لئے روزنامہ ’جنگ‘ کے محولہ بالا صفحات کا مطالعہ مناسب ہوگا :
1. سفارش نمبر ایک میں ہے کہ زنا بالرضا کا مقدمہ اس وقت تک درج نہ کیا جائے جب تک شکایت درج کرانے والا اپنے ساتھ چار گواہ لے کر نہ آئے اور وہ وقوعہ زنا پر تحریری گواہی دیں جبکہ سفارش نمبر ۸ میں ہے کہ زنا بالجبر کی صورت میں محض قرائن، سائنس اور میڈیکل کے علم کی گواہی کافی سمجھی جائے اور ایسے ثبوت کے بعد مجرم پر ’حد‘ کا اطلاق ہونا چاہئے۔
دونوں میں فرق کی و جہ بھی خود مرتبین کے اپنے الفاظ (مسئلہ نمبر ۸) میں ملاحظہ فرمائیے:
’’آج تک عصمت دری کے کسی ملزم پر حد کا اطلاق نہیں کیا گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالتوں میں ایسا کوئی بھی مقدمہ نہیں ہے جس میں چار متقی، ایمان دار اور سچے گواہ دستیاب ہوں۔ ‘‘
2. سفارش نمبر۳ میں ہے کہ زنا بالرضا کی صورت میں ملزمہ کی بے گناہی کی صورت میں عدالت از خود قذف کا مقدمہ درج کرے، کسی نئی درخواست کا انتظار نہ کیا جائے جبکہ سفارش نمبر ۷ کی رو سے زنا بالجبر کی صورت میں از خود قذف کا مقدمہ درج نہ کیا جائے بلکہ الگ سے کیس دائر کرنا ہوگا۔ (اس فرق کا مقصد زنا بالرضا کی صورت میں مدعی کو ہراساں کرنا ہے)
3. سفارش نمبر ۴ یہ ہے کہ زنا بالرضا کی صورت میں حمل کو کافی ثبوت قرار نہ دیا جائے جبکہ سفارش نمبر۸ کی رو سے زنا بالجبر میں سائنس اور میڈیکل کے علم کی گواہی کافی سمجھی جائے۔
4. سفارش نمبر۵ یہ ہے کہ زنا بالرضا میں جہاں چار گواہیاں پوری نہ ہوں ، وہاں موجودہ قانون میں درج تعزیر کی سزا دینا درست نہیں ، اس صورت میں سزا کا خاتمہ کیا جائے۔(مقصد یہ ہے کہ زنا بالرضا پر حد کی سزا کی طرح، کمتر گواہیوں کی صورت میں تعزیر کو بھی ناممکن بنا دیا جائے تاکہ زنا بالرضا کرنے والوں کو پورا قانونی تحفظ حاصل رہے )
5. سفارش نمبر۶یہ ہے کہ زنا بالرضا کی سزا دیتے ہوئے معاشرے کے حالات وواقعات اور