کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 118
وہ شوہر کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ کراسکتی ہے۔ وہاں زنا صرف اسی صورت میں جرم ہے کہ اس میں فریقین کی رضامندی نہ پائی جائے، نکاح کے بغیر جنسی تعلق کو زنا ہی نہیں سمجھا جاتا۔ زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی تقسیم؟ مغرب میں اساسی طورپر زنا کی دو صورتیں ہیں : ایک جائز اور دوسرا جرم۔ دوسری طرف اسلام ان دونوں کو جرم قرار دیتا اور بنیادی طورپر ان میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ قرآن وسنت اور اسلامی فقہی ذخیرہ میں ان دونوں جرائم کو علیحدہ علیحدہ زیر بحث بھی نہیں لایا جاتا اور بیوی کے علاوہ کیا جانے والاجنسی فعل ’زنا‘ ہونے کے ناطے ایک سنگین جرم قرار پاتا ہے۔ اگر عورت کے بیان یا قرائن کے ذریعے اس پر جبر کا علم ہوجائے تو اس صورت میں عورت کو نہ صرف بری قرار دیا جاتا ہے بلکہ حق عصمت پر دست درازی کی وجہ سے اس کو تاوان بھی ادا کیا جاتا ہے۔ تفصیلات کے لئے دیکھئے حواشی صفحہ نمبر: ۵، ۹ اسلامی شریعت کا یہی اُسلوب حدود قوانین میں بھی اپنایا گیا ہے۔ دوسری طرف پیش نظر مجوزہ ترامیم میں مغرب کی طرح زنا کو دو مستقل جرائم میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے پس پردہ یہ مغالطہ کارفرما ہے کہ قرآن کریم میں درج زنا کی سزا دراصل زنا بالرضا کی ہے، اور قرآن میں درج نصابِ شہادت بھی اسی کے ساتھ مخصوص ہے۔ ایسے ہی زنا بالجبرایک علیحدہ جرم ہے جس کی سزا اور طریقۂ ثبوت ودیگر تفصیلات کا قرآن میں کوئی تذکرہ نہیں۔ فکر ونظر کا یہ ایسا بنیادی اختلاف ہے جس کی بنا پر اُٹھنے والی تمام عمارت ہی ٹیڑھی ہوجاتی ہے۔یہ موقف بالکل نیا ہے، جس کے پردے میں مغربی تہذیب کے راستے ہموار ہوتے ہیں۔ روزنامہ جنگ کی شائع کردہ تمام سفارشات کا تعلق بھی اسی امر سے ہے کہ زنا بالرضا اور