کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 115
٭ نکاح پرنکاح کے مقدمات کا مسئلہ
ایک شادی شدہ عورت جب اپنے شوہر کے ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہے یا اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن نہیں ہوتی تو اس کے لئے اس بات کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ یا تو وہ اسے اپنی قسمت کا لکھا ہوا سمجھ کر رو دھو کر ساری زندگی گزاردے یا پھر اپنے والدین یابھائیوں کے ہاں جاکر اپنے شوہر سے طلاق لینے کے لئے چارہ جوئی کرے۔ عام طور پر ہمارے عدالتی نظام کی پیچیدگیوں نیز ہمارے معاشرے میں عورتوں کے عدالت میں جانے کومعیوب سمجھنے کاتصور اُنہیں عدالت میں جانے سے باز رکھتا ہے اور عام طور پر برادری یا علاقہ کے مؤثر افراد کو جرگہ کی صورت دے کر طلاق لے لی جاتی ہے۔لیکن عائلی قوانین سے عدمِ واقفیت اور مسلم فیملی لا آرڈی نینس کی دفعہ نمبر ۷ میں دیئے گئے طریقہ کار کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ایسی خواتین پہلے شوہر سے اپنی طلاق کو ثابت نہیں کرپاتیں۔
مسلم فیملی لا آرڈی نینس کی دفعہ نمبر ۷ کے تحت ایک مرد کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو تحریری طلاق دینے کے بعد اس کی ایک نقل ثالثی کونسل کو بھی ارسال کرے اور ۹۰ دن گزرنے کے بعد سر ٹیفکیٹ طلاق حاصل کرے جوکہ طلاق کاقطعی ثبوت ہوتاہے۔ لیکن کبھی تو جان بوجھ کر اور کبھی قانون سے عدم واقفیت کی بنا پر وہ ایسا نہیں کرتا۔اگرچہ اسی دفعہ میں اس بات کاذکربھی موجود ہے کہ جو شوہر ثالثی کونسل کو طلاق کا نوٹس نہیں بھیجے گا، اسے ایک سال قید اور جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔ لیکن بعض پیچیدگیوں کی بنا پر اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ نیز عورت کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ ثالثی کونسل کو طلاق سے متعلق نوٹس بھیج سکے جس کی وجہ سے وہ خود ایسا نوٹس بھیج کر طلاق سر ٹیفکیٹ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔
حد زناآرڈی نینس کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں سے ایک بڑی تعداد ان مقدمات کی ہے جن کا اندراج ان خواتین کے خلاف کیا جاتا ہے جو پہلے خاوند سے طلاق لینے کے بعد دوسری شادی کرلیتی ہیں لیکن طلاق کا قطعی ثبو ت نہ ہونے کی وجہ سے ایسے مقدمات کا سامناکرتی ہیں۔ مثال کے طورپر اڈیالہ جیل راولپنڈی میں طاہرہ نامی ایک عورت بند ہے اس کی پہلی شادی۱۹۸۸ء میں اپنے چچازاد سے ہوئی جو بعد ازاں گھریلو ناچاقی کے نتیجہ میں زبانی