کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 114
سالوں تک تفتیش مکمل نہیں کرتی۔ کبھی تو سرے سے چالان عدالتوں کوبھیجا ہی نہیں جاتا اوراگر خوش قسمتی سے جلدی بھیج بھی دیا جائے تو وہ نامکمل ہوتاہے۔ نیز پولیس کے گواہوں کی عدم دلچسپی، عدالتی سمنوں کو اتنی اہمیت نہ دینا، شہادت کیلئے وقت پر عدالت میں پیش نہ ہونا، ان وجوہات کی بنیاد پر بھی اس آرڈی نینس کے تحت مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ حد زنا آرڈی نینس ہی نہیں بلکہ ہمارا پورا نظام بااثر اور صاحب ِثروت افراد کے ہاتھوں میں کھلونا بن کے رہ گیا ہے جسے زیردستوں اور معاشرے کے کمزور طبقات پر ظلم ڈھانے کے لئے استعمال کیاجاتاہے۔ قوانین کو ختم کرنے کی بجائے خرابی کے اصل محرکات کوتلاش کرنا چاہئے اور ان کی بیخ کنی کیلئے مؤثر اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ ہم یہاں اس امر کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ضابطہ فوجداری کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار سے باہر رکھا گیاہے جس کی وجہ سے وفاقی شرعی عدالت آج تک اس ضابطہ کی قباحتوں اور خامیوں کو دور کرنے کے لئے کوئی عملی تجاویز دینے سے قاصر رہی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ دراصل حد زنا آرڈی نینس ناکام نہیں ہوا بلکہ انگریز کا بنایاہوا ۱۸۹۸ء کا گھسا پٹا ضابطہ فوجداری ناکام ہوا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ جہاں تک اس بات کاتعلق ہے کہ جیلوں میں ۸۰ فیصد سے ۹۰ فیصد خواتین کے خلاف حد زناآرڈی نینس کے تحت مقدمات درج ہوتے ہیں ،یہ درست نہیں ، بلکہ ستمبر ۲۰۰۳ء میں لئے گئے اعداد وشمار کے ایک جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دعویٰ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ سنٹرل جیل کراچی کی ۲۸۰خواتین قیدیوں میں حدود کی ملزمہ خواتین ۸۰تھیں ، یعنی ۲۸ فیصد اڈیالہ جیل، پنڈی کی ۱۲۵خواتین قیدیوں میں حدود کی ملزمہ خواتین ۳۱ تھیں ، یعنی ۲۴ فیصد کوٹ لکھپت لاہور جیل کی ۹۷خواتین قیدیوں میں حدود کی ملزمہ ۴۸ تھیں ، یعنی ۴۹ فیصد جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کل ۵۰۲ خواتین میں ۱۵۹ یعنی ۳۱ فیصد خواتین کو حدود کی بنا پرمقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ایسے ہی جولائی ۲۰۰۳ء میں صوبہ سرحد میں خواتین قیدیوں کی تفصیلات کا جائزہ لیا گیا تو کل ۱۷۲ قیدی خواتین میں ۵۲ یعنی ۳۲ فیصد خواتین حدودکے مقدمات کا سامنا کررہی تھیں۔