کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 113
ہے۔ جیلوں میں بندخواتین میں ۸۰ فیصد سے۹۰ فیصد خواتین کے خلاف اس آرڈی نینس کے تحت مقدمات درج ہوتے ہیں۔[1] حد زناآرڈی نینس کی دفعہ نمبر ۲۰ کے تحت چونکہ ضابطہ فوجداری ۱۸۹۸ء کی دفعات کا اطلاق حد زنا آرڈی نینس پربھی ہوتا ہے اور جو طریقہ کار دیگر مقدمات میں مقدمہ کے اندراج سے لے کر مقدمہ کی سماعت تک اختیارکیاجاتاہے، وہی اس آرڈی نینس کے تحت مقدمات کی سماعت کے لئے بھی اختیار کیاجاتاہے اور اس کے لئے الگ سے کوئی ضابطہ یا طریقہ کاروضع نہیں کیا گیا لہٰذا مقدمہ کے اندراج سے تکمیل تفتیش تک پولیس کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔ ہماری موجودہ پولیس نے جس طرح دیگر جرائم کے اندر رشوت ستانی، اقربا پروری، ناانصافی اور تشدد کا بازار گرم کررکھا ہے، اس آرڈی نینس کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں بھی وہ سارا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حد زنا آرڈ نینس آج شدید تنقید کی زد میں ہے اورپولیس کے کردار کوبھی حد زنا آرڈی نینس کے کھاتہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔اصل خرابی یعنی پولیس کے کردار کوٹھیک کرنے کے بجائے اس آرڈی نینس کو منسوخ کرنے کے لئے اتناشور مچایا جارہا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ پولیس کوجو اختیارات ضابطہ فوجداری کے تحت دیئے گئے ہیں ، پولیس اُن اختیارات کا نہ صرف غلط استعمال کرتی ہے بلکہ اس نے اپنے لئے مزیداختیارات بھی وضع کرلئے ہیں۔ حد زناآرڈی نینس کی آڑ میں گھروں کے اندر چھاپے مارنا، راہ چلتے لوگوں کو روک کر ان کے نکاح نامے چیک کرنا، محض شک کی بنیادپرلوگوں کو خاص طور پر خواتین کو گرفتار کرنا اورمظلوم خواتین کو بھی شریک ملزم گردانتے ہوئے ملزمہ بنا دینا روز کا معمول ہے جس سے پاکستان کا ہر شہری بخوبی واقف ہے۔اسی طرح ایسے جرائم کے تحت گرفتار ہونے والی خواتین پر پولیس حراست کے دوران جنسی تشدد کی خبریں بھی آئے روز اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ نمبر۱۷۳ واضح طور پرتفتیش کے لئے ۱۵ دن کی مدت کا تعین کرتی ہے لیکن پولیس اس دفعہ کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے مہینوں اور بعض کیسوں میں