کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 112
پھسلا کر لے جاتا ہے۔وفاقی شرعی عدالت اپنے متعدد فیصلوں میں اس دفعہ کے الفاظ کی تشریح کے دوران یہ اُصول طے کرچکی ہے کہ اس دفعہ کااطلاق صرف مردوں پرہوتا ہے اور خواتین پر اس دفعہ کے تحت نہ تو مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے اورنہ ہی اُنہیں سزا دی جاسکتی ہے۔[1]لیکن عملی طورپر کیا ہورہا ہے، اسکا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ دفعہ ۱۶ کے تحت عورتوں کو غلط طور پر ملوث کرنے کے راولپنڈی میں ۳۷فیصد اور اسلام آباد میں ۴۳ فیصد واقعات ہوتے ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں اس دفعہ کا خواتین کے خلاف غلط استعمال لمحہ فکریہ ہے اور فوری طور پراس کا سدباب ہونا چاہئے، تاہم یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ اس میں اس دفعہ کا کوئی قصور نہیں ہے اور حد زناآرڈی نینس کوموردِ الزام ٹھہرانا سراسر ناانصافی ہے۔ اس کی اصل ذمہ دار پولیس اور ہمارا گھسا پٹا عدالتی نظام ہے۔
بے شک بعد ازاں مقدمہ کی کارروائی کے دوران عدالتیں اس دفعہ کا عورتوں پراطلاق نہ ہونے کی بنیاد پر اُنہیں ’باعزت‘ بری کردیتی ہیں لیکن تفتیش و عدالتی طریق کارکی خامیوں کی بنا پر ایسی عورت کو ایک لمبے عرصے تک جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ یا اگر خوش قسمتی سے اس کی ضمانت کا بندوبست ہوجائے تو پیشیاں بھگتنے کے لئے کچہری کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ مثال کے طور پرایک مقدمہ میں گلشن رانی نامی ایک عورت ڈیڑھ سال کے عرصہ تک جیل میں رہی اور بعد ازاں اسے اس بنا پربری کردیاگیا کہ اس دفعہ کا اطلاق عورتوں پرنہیں ہوتا۔
اس معاملے کا یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ ولی کی رضا مندی کے بغیر نکاح کرلینے کے بعد بہت سے مقدمات میں خاتون معاشرتی اور خاندانی دباؤ کی بنا پرلڑکے پر الزام دھر دیتی ہے کہ اس نے اس کے ساتھ جبراً نکاح کیا۔یوں اس مرد کو اور بعض واقعات میں اس کے پورے خاندان کو اغوا اور زنا کے مقدمات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔
٭ حد زنا آرڈی نینس کا خواتین کے خلاف غلط استعمال کیوں ؟
اس آرڈی نینس کی دفعات کو خواتین کے خلاف غلط طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔خواتین کو محض ذاتی رنجشوں کی بنیاد پر انتقام کانشانہ بنانے کے لئے حدود کے مقدمات میں پھنسایا جاتا