کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 111
کرتے ہیں لیکن اس بنا پر قوانین کو ختم نہیں کیا جاتا۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے قانون کاغلط استعمال کرنے والوں کی تربیت اور تادیب کاخاطرخواہ انتظام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری رائے میں اس آرڈی نینس کے تحت مقدمات کے اندراج سے لے کر تکمیل تفتیش تک کے تمام اختیارات پولیس سے واپس لے لئے جائیں۔ایسے تمام مقدمات استغاثہ کی صورت میں براہِ راست عدالت میں دائر کئے جائیں اور عدالت خود ان مقدمات کی تفتیش کرے اورصرف انتہائی ضرورت کے تحت کوئی بھی معاملہ کسی تفتیشی ایجنسی کو بھیجاجائے تاکہ اس بات کا یقین کرلیاجائے کہ اس ایجنسی کے متعلقہ اہل کار دیانتدار اور امین ہونے کی شہرت رکھتے ہوں نیز ایسے مقدمات کی تفتیش اور سماعت کے لئے میعاد کا تعین کردیاجائے۔ ٭ خواتین کے خلاف دفعہ۱۶ کے تحت مقدمات کا اندراج کیوں ؟ اس دفعہ٭ کے الفاظ پرتھوڑا سا بھی غور کیاجائے تو یہ بات واضح طور پرسامنے آتی ہے کہ اس کااطلاق خواتین پر نہیں ہوتا بلکہ اس مرد پر ہوتا ہے جو بُری نیت کے ساتھ کسی عورت کوبہلا _________________ ٭ سابقہ حاشیہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک کنواری اور شادی شدہ عورت ہر دو سے زنا کے مجرم کو مہر مثل ادا کرنے کا پابند بھی کیا جائے گا۔ (مصنف عبد الرزاق : ۱۳۶۵۷) وفاقی شرعی عدالت نے زعفران بی بی کیس میں حسب ِذیل صراحت کی ہے : ’’اگر کسی عورت کو زنا پر مجبور کیا جائے تو اس جرم کے سرزد ہونے کے بعد زیادتی کا شکار عورت کو کسی طرح کی سزانہیں دی جاسکتی، چاہے وہ حد ہو یا تعزیر، البتہ دوسرا فریق جو زیادتی کا مرتکب ہوا ہے وہ نفاذ ِحد یا تعزیری سزا کا مستحق ہے۔‘‘ (پی ایل ڈی ۲۰۰۲ء وفاقی شرعی عدالت ، صفحہ نمبر ۱) اس فیصلہ میں یہ بھی قرار دیاگیا ہے کہ ’’اگر کوئی غیر شادی شدہ عورت یا شادی شدہ خاتون جس کی رسائی اس دوران اپنے شوہر تک نہیں تھی، حاملہ پائی جاتی ہے اور یہ موقف اختیار کرتی ہے کہ یہ حمل زنا بالجبر کی وجہ سے قرار پایا ہے تو اس پر نفاذِ حد کی سزا لاگو نہیںکی جاسکتی،جب تک کہ اسے وہ تمام حالات بیان کرنے اور سچائی ثابت کرنے کاموقع نہ دیاجائے۔ اور یہ بات نکھر کر سامنے نہ آجائے کہ اس جرم میں اس کی بلا جبر و اکراہ رضا مندی شامل تھی۔‘‘ ٭ دفعہ ۱۶ کامتن یہ ہے: ’’جو کوئی کسی عورت کو اس نیت کے ساتھ بہلا پھسلاکر لے جاتا ہے کہ وہ اس شخص سے مباشرت کرے گی یا اس (مباشرت کی ) نیت سے اسے چھپا کر رکھتا ہے یاقید کرتا ہے تو اسے سات سال تک قید، ۳۰ تک کوڑوں اور جرمانے کی سزا دی جاسکے گی۔‘‘